مارکیٹ کمیٹیوں کو بچائیں

اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں کہا جاتا اس کے پیچھے پوری نفسیات پنہاں ہے۔ ہم نے کوئی کام وقت پر نہیں کرنا ہوتا۔ ہم سلگتی ہوئی آگ کو بجھانے کی بجائے بھانبڑ مچنے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ہم سلگتی ہوئی آگ پر ایک بالٹی پانی ڈال کر اسے بجھانے کی بجائے فائر بریگیڈ کی گاڑی کا انتظار کرتے اتنا نقصان کر بیٹھتے ہیں کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں رہتا اور جلا کر سب کچھ راکھ کروا بیٹھتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سٹیل مل کراچی کا بیڑہ غرق ہو گیا، واپڈا کا خسارہ، ریلوے کا خسارہ ،پی آئی اے کا خسارہ اور سوئی گیس کا خسارہ قومی معیشت پر بوجھ بن گیا۔ اچھے بھلے منافع میں چلتے اداروں میں حالات و واقعات اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں نہ کر کے ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ادارے تباہ کر لیے۔ فیصلہ کرنے والوں نے بروقت فیصلے نہ کیے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اداروں کو تباہ ہونے دیا گیا۔
 اگر ابتدا میں ہی تھوڑی سی کوشش کی جاتی تو معمولی سے اقدامات کر کے ان سب اداروں کو بچایا جاسکتا تھا۔ مکمل تباہی کے بعد ان اداروں کی بحالی ناممکن ہوچکی ہے اور اس تباہی کا آج پوری قوم خمیازہ بھگت رہی ہے۔ ہم ہر سال ہزاروں ارب روپے خسارہ برداشت کرتے رہے لیکن ان کو درست نہ کر سکے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ہم با دل نخواستہ یہ ادارے ٹکے ٹوکری فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ کوئی یہ ادارے ہم سے مفت لے لے اور ہماری جان چھڑوا دے لیکن جان چھوٹ نہیں رہی اسی طرح کا معاملہ پنجاب کی مارکیٹ کمیٹیوں کا ہے جو محکمہ زراعت کے زیر سایہ ڈی جی PAMARA کے ماتحت کام کر رہا ہے۔ حکومت نے اسے کسی حد تک خود مختاری دی ہوئی ہے۔ پنجاب بھر میں اے، بی، سی، تین کیٹگری کی 131 مارکیٹ کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ یہ کسانوں ڈیلرز بیوپاریوں کمشن ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ دکانداروں اور عام خریداروں کو سہولیات فراہم کرتی ہیں ان میں غلہ منڈیاں فروٹ اور سبزی منڈیاں شامل ہیں ان مارکیٹ کمیٹیوں کے زیر انتظام منڈیوں کا ایک مربوط انتظام ہے جو زرعی مارکیٹنگ سسٹم کی بہتری میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں یہ ادارہ منڈیوں کے اندر سڑکیں، صفائی کوآرڈینیشن پلیٹ فارمز، سٹریٹ لائیٹس سیوریج اور ڈرینج سسٹم کی بنیادی سہولتیں فراہم کرتا ہے جبکہ ان مارکیٹ کمیٹیوں کی آمدن کا ذریعہ فی کوئنٹل یعنی 100 کلو گرام اجناس پر 2 روپے فیس ہے۔ یہ 2 روپے کی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس فیس میں سسٹم کو چلانا ناممکن ہو چکا ہے۔ مارکیٹ کمیٹیوں نے اس معمولی سی فیس کی آمدن سے اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن ادا کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہیں اور منڈیوں کے انتظامی معاملات کو چلانا ہے۔
 صورتحال اس وقت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پنجاب کی مارکیٹ کمیٹیاں معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ان 131 مارکیٹ کمیٹیوں میں سے 30 کے قریب کمیٹیاں جیسے تیسے کرکے اپنے معاملات چلا رہی ہیں لیکن سو سے زائد کمیٹیاں تو آخری سانسوں پر ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ملازمین کی کئی ماہ سے تنخواہیں واجب الادا ہیں۔ پنشنرز کو بھی کئی ماہ سے پنیشن نہیں ملی ملازمین کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ ایک مارکیٹ کمیٹی کے انسپکٹر نے کئی ماہ تک تنخواہ نہ ملنے سے دلبرداشتہ ہو کر پچھلے دنوں میں خودکشی کرلی اور اس کے لواحقین نے عزت کی خاطر خاموشی اختیار کرلی۔ پنجاب حکومت محکمہ زراعت اور PAMARA کی اس بارے پر اسرار خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا حکومت اس انتظار میں ہے کہ مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے؟ کچھ تھوڑا بہت جو قیمتوں پر سرکاری کنٹرول ہے وہ بھی ختم ہو جائے؟ منڈیاں تباہ ہو جائیں اور لوگ پرائیویٹ منڈیاں قائم کر کے اپنی اجارہ داری قائم کر لیں؟ کیا حکومت مارکیٹ کمیٹیوں کے سسٹم کو تباہ کرکے کسانوں کو آڑھتیوں اور پرائیویٹ اجارہ داروں کے حوالے کرنا چاہتی ہے؟ پنجاب حکومت، محکمہ زراعت اور PAMARA کو چاہیے کہ وہ فوری طور مارکیٹ کمیٹیوں کی اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اقدامات کرے اور مارکیٹ کمیٹیوں کو مکمل تباہ ہونے سے پہلے بچا لیں یا تو موجودہ شرح فیس 2روپے سے بڑھا کر 25 روپے فی کوئنٹل کردی جائے یا پھر مارکیٹ کمیٹی ریگولیشن 2020 کے ضابطہ نمبر 25 (1) میں فراہم کردہ زرعی پیداوار کی فروخت کی قیمت زیرو اشاریہ پانچ فیصد شرح پر مارکیٹ فیس وصول کرنے کی اجازت دی جائے یا پھر خصوصی فنڈز مختص کرکے مارکیٹ کمیٹیوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ مارکیٹ کمیٹیاں فعال اور مستحکم ہوسکیں اور منڈیوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کی جاسکیں اور بنیادی انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن