اگست ہمارے لیے آزادی کا مہینہ ہے، اس مہینے ہم چودہ اگست کو یوم آزادی بھی مناتے ہیں۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ ہم کل اپنایوم آزادی منا رہے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آئندہ برس کے اہداف مقرر کر رہے ہوتے، گذرے برس کی کامیابیوں کو قوم کے سامنے رکھتے، نوجوانوں کو متحرک کر رہے ہوتے لیکن اس کے بجائے ہم آج بھی بنیادی مسائل کو رو رہے ہیں، معیشت مشکلات میں گھری ہوئی ہے، آئینی و قانونی بحران کا سامنا ہے، الزامات کا طوفان ہے، بہت سے لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے، بہت سے لوگ یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، بہت سے لوگ کچھ ٹھیک کرنا نہیں چاہتے، شاید کوئی ذمہ داری لینا نہیں چاہتا، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ آگے نہیں آ سکتے ، انہیں کوئی راستہ نہیں دیتا اور بہت بڑی تعداد آج بھی یہ سوچ رہی ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے، کون اس کا ذمہ دار ہے، ہماری سیاسی قیادت ملک و قوم کو آگے بڑھانے کے بجائے تاریخ میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں سیاسی طور پر زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ماضی کو پیٹتے رہنا ہی مسائل کا حل ہے، ماضی کے واقعات کو دہرانا، اپنی غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور حریفوں کی غلطیوں پر بیانات جاری کرتے رہنا ہی سیاسی طور پر زندہ رکھ سکتا ہے۔ سیاسی طور پر زندہ رہنے کا یہ طریقہ آج بھی ملکی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی قیادت آج بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں ہے۔ جو حکومت میں ہیں وہ ساری توانائیاں سابق حکومت کے فیصلوں کو غلط ثابت کرنے میں خرچ کرتے ہیں اور جو آج حزب اختلاف میں ہیں ان کی پوری کوشش ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی خرابی ہو یا ملک میں کچھ غلط ہو تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی جائے۔ ستم ظریفی ہے کہ حکمران طبقہ شاید بھول چکا ہے کہ یہ آزادی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کی نسبت سے ہی قوم پر کچھ رحم کریں۔ کاش کہ رحم کریں۔
آج بھی یہ بیانات ہیں کہ ملک کیسے چلے گا، کیسے آگے بڑھے گا، کافی وقت گذرا ہے میں نے ان صفحات پر لکھا تھا کہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، پارلیمنٹ کے ذمہ داران سے بھی درخواست کی کہ وہ ذاتی اختلافات کو بھلا کر ملک کی بہتری کے لیے آگے آئیں۔ عمومی طور پر جب آپ چیف جسٹس اور آرمی چیف سے اصلاح احوال کی درخواست کرتے ہیں تو لوگ اسے ماورائے آئین سمجھتے ہیں یہ خیال پیش کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ریاست سب سے اہم ہے۔ ریاست کا وجود ہو گا تو آئین بنایا جائے گا، ریاست کو قائم رکھنے اور کروڑوں شہریوں کو ریاست کی وفاداری کے لیے ترغیب اس وقت ہی دی جا سکے گی جب شہریوں کی ریاست میں دلچسپی ہو گی۔ آج لوگوں کے لیے زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے، لوگ روز مرہ زندگی میں مسلسل مشکلات کا سامنا کرتے کرتے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک ہی جیسے مسائل کا روزانہ سامنا ہوتا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کوئی بھی مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ صحت، تعلیم، ٹیکنالوجی، فن و ثقافت سمیت دیگر تمام شعبوں میں تنزلی ہر گذرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بیان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان کو آگے آنا چاہیے کہ ملک کیسے آگے نکلنا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا ان صفحات پر لکھا گیا تھا کہ لوگ پاکستان میں تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ انتخابات کے بعد ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال اب نظر دوڑاتے ہیں سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے بیان پر وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اب نئے الیکشن سے بھی معاملات حل نہیں ہوں گے، آرمی چیف، چیف جسٹس اور سیاستدان ملکر فیصلہ کریں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ یہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت، تجربہ کار سیاست دان اور ملک کے سابق وزیراعظم کی سوچ ہے۔ شاہد خاقان عباسی ان دنوں زمینی حقائق کے مطابق گفتگو کر رہے ہیں۔ وہ جب مسلم لیگ ن میں تھے اس وقت بھی گفتگو کے معاملے میں شاہد خاقان عباسی کا شمار سنجیدہ افراد میں ہوتا تھا۔ چونکہ انہیں نظام چلانا آتا ہے، دہائیوں سے انتخابی عمل کا حصہ ہیں اس لیے ان کی رائے میں وزن ہے۔ میں اس جمہوری نظام کی ناکامی کے بعد کسی اور نظام کا ذکر کرتا ہوں تو بہت سے لوگ برا مناتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ لوگوں کے بنیادی مسائل کون حل کرے گا اور کیسے کرے گا، ملک کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے یہ توازن قائم رکھنے یا آبادی کے تناسب سے وسائل میں اضافے کے لیے کس نے کام کرنا ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ بہرحال اس وقت بھی ہم مشکل میں ہیں۔ پارلیمنٹ کو اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرنا چاہیے، اگر سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریاں نبھائے تو کسی کو آرمی چیف اور چیف جسٹس کو یاد نہ کرنا پڑے۔ ایسی آوازیں جمہوری نظام کی ناکامی کو ثابت کرتی ہیں۔ کیا یہ سیاسی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا شمار بھی نیب کے قریبی تعلقات والے افراد میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ برسوں سے نیب کے مختلف مقدمات میں عدالتوں میں حاضریاں لگوا رہے ہیں لیکن اب انہیں نیب مقدمات کے معاملے میں بھی اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ عدالت نے انہیں ایک کیس میں بری بھی کیا ہے ۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ چار سال سے زیادہ عرصے میں ہمارے خلاف صرف ایک گواہ کا بیان قلمبند کیا گیا، یہ ریفرنس کرپشن کے خلاف نہیں اختیارات کا غلط استعمال تھا، پہلے بھی عدالت یہ کہہ چکی ہے کہ ریفرنس غلط قائم کیا گیا تھا۔ چار سال سے ریفرنس چلایا جاتا رہا ہے یہ بھی نظام کی مہربانی ہے، جتنی جلدی نیب کو ختم کیا جائے اتنا ملک کے لیے بہتر ہو گا۔ پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے اس طرح کے کیسز شروع کیے جاتے ہیں، آج ہمارے لیے خوشی کا دن ہے کہ عدالت نے بری کر دیا ہمارے کیسوں میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا تھا کہ وکٹیں گرا رہا ہوں۔
آخر میں ساحر لدھیانوی کا کلام
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دِل ابھی بَھرا نہیں
ابھی ابھی تو آئے ہو
بہار بن کے چھائے ہو
ہوا ذرا مَہک تو لے
نظر ذرا بہک تو لے
یہ شام ڈھل تو لے ذرا
یہ دل سنبھل تو لے ذرا
میں تھوڑی دیر جی تو لْوں
نشے کے گھونٹ پی تو لْوں
ابھی تو کچھ کہا نہیں
ابھی تو کچھ سْنا نہیں
سِتارے جِھلملا اْٹھے
چراغ جگمگا اْٹھے
بس اب نہ مجھ کو ٹوکنا
نہ بڑھ کے راہ روکنا
اگر میں رْک گیا ابھی
تو جا نہ پاؤں گا کبھی
یہی کہو گے تم سَدا
کہ دل اَبھی نہیں بھرا
جو ختم ہو کسی جگہ
یہ ایسا سلسلہ نہیں
ابھی نہیں , ابھی نہیں
نہیں نہیں ، نہیں نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دِل ابھی بَھرا نہیں
ادھوری آس چھوڑ کے
جو روز یونہی جاؤ گے
تو کس طرح نبھاؤ گے
کہ زندگی کی راہ میں
جواں دلوں کی چاہ میں
کئی مقام آئیں گے
جو ھم کو آزمائیں گے
بْرا نہ مانو بات کا
یہ پیار ہے ، گلہ نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بَھرا نہیں
یہی کہو گے تم صَدا
کہ دل ابھی بَھرا نہیں
ہاں دل ابھی بَھرا نہیں
نہیں نہیں ، نہیں نہیں