اسماعیل ہینہ کی شہادت پر اوآئیسی اجلاس

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ایران میں حماس کے سیاسی سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو شہید کرنے والے حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کردی ہے جبکہ تہران نے بھی جوابی کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کی۔ انہوں نے ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے علاوہ بھی اہم ملاقاتیں کیں اور غزہ میں جاری لڑائی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی بربریت و جارحیت کی مذمت کی۔ او آئی سی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق سعودی عرب میں 57 رکنی تنظیم کے ایگزیکٹو بورڈ کے ایک غیر معمولی اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس گھناؤنے حملے کے لیے غیر قانونی قابض طاقت اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اس حملے کو ایران نے اس کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔او آئی سی کی سربراہی کرنے والے ملک گیمبیا کے وزیر خارجہ مامادو تنگارا نے بتایا کہ اسمعیل ہنیہ کی شہادت اور غزہ میں جاری جنگ علاقائی تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر ایک سیاسی رہنما کو شہید کر کے اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی جارحیت اور خلاف ورزی ایک ایسا عمل ہے جسے تنہائی میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ان کے مطابق یہ گھناؤنا عمل صرف موجودہ تناؤ کو بڑھانے کے لیے کام کرے گا جو ممکنہ طور پر ایک وسیع تر تنازع کا باعث بن سکتا ہے جس میں پورا خطہ شامل ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایران اور فلسطین نے سعودی ساحلی شہر جدہ میں او آئی سی کا اجلاس طلب کیا تھا، یہ بلاک خود کو مسلم دنیا کی اجتماعی آواز کے طور پر بیان کرتا ہے۔ میزبان سعودی عرب نے یہ بھی کہا کہ اسمعیل ہنیہ کا قتل ایران کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سعودی نائب وزیر خارجہ ولید الخیریجی نے بتایا کہ ان کا ملک ریاستوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی یا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو مسترد کرتا ہے۔ حماس اور ایران نے گزشتہ ہفتے تہران میں اسمعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا تاہم اسرائیلی حکومت نے اس کی ذمہ داری کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ ایران نے اسرائیل کو سخت سزا دینے کی دھمکی دیتے ہوئے جوابی کارروائی کا وعدہ کیا لیکن امریکا اور دیگر مغربی ممالک کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ او آئی سی کے کئی ارکان واشنگٹن سے متفق ہیں کہ کشیدگی میں اضافہ خطے میں جاری بحرانوں کو مزید بڑھا دے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کریں گے کہ او آئی سی کے اس اجلاس میں وہی چیز ہو گی جسے ہم گزشتہ ہفتے سے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ علاقائی کشیدگی غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکانات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ جو پیغام ہم سب کو بھیج رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ظاہر ہے کہ یہ خطے کے لیے بہت نازک وقت ہے، تناؤ زیادہ ہے، مگر امید ہے کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے کے آخری مراحل میں ہیں۔

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کو لگام ڈالنے کیلئے مکمل اتحاد کی ضرورت ہے، او آئی سی جو کچھ ہوسکتا ہے وہ ضرورکرے، اگر اسرائیل جنگ بندی نہیں کرتا تو پابندیاں لگائی جائیں۔ او آئی سی وزرا خارجہ کی ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور فلسطین میں اسرائیل کی بربیت کی شدید مذمت کی۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اسرائیل کی اب صرف مذمت کافی نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کو اسکے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔ اگر جنگ بندی نہیں کی جاتی تو پابندیاں لگائی جائے۔ تمام او آئی سی اراکین تجارتی اور تیل کی پابندیاں لگائیں، او آئی سی مکمل سیز فائر کی کوشش کرے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمیں مکمل اتحاد کے ساتھ بھرپوراقدامات کرنے ہوں گے، مسلم امہ آج ایک مشکل موڑ پر کھڑی ہے، یاد رکھا جائے گا کہ ظالم سے کسطرح ڈیل کیا، ہمیں امن چاہئے جنگ نہیں، استحکام چاہئے تباہی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا ہم کسی اور بحران کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم او آئی سی ریجن کو پاور گیم کیلئے شطرنج کی بساط بننے دیں ؟ کیا وہ ہمارے لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کریں، ؟ کبھی نہیں، ہماری قوم کو او آئی سی سے بہت سی توقعات ہیں، او آئی سی فلسطین اور ایران یکجہتی کا پیغام بھیجے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اسرائیل جس بربریت کا مظاہرہ کررہا ہے، وہ محض مہم جوئی سے کہیں زیادہ اور خالصتاً پاگل پن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جو کچھ کر چکا ہے اور مستقل کررہا ہے، کیا کوئی بھی باشعور، باضمیر قوم، کوئی بھی ذمہ دار حکومت یا ریاست اس سے آنکھیں بند کر سکتی ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال بگڑ رہی ہے اور ہمارے لوگ بالخصوص نوجوان سوال کررہے ہیں جنہیں اسلامی تعاون تنظیم سے بے پناہ توقعات ہیں، وہ جنگ کے نہیں بلکہ امن و استحکام کے مستحق ہیں، وہ تباہی کے نہیں بلکہ خوشحالی کے مستحق ہیں۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ مسلم امہ دوراہے پر کھڑی ہے، ایک مرتبہ پھر ہمیں اسی بنیاد پر پرکھا جائے گا کہ ہم اس قابض اسرائیل سے کس طرح سے نمٹتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن