اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے 3 ارکان قومی اسمبلی کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں بحال کر دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے 3 حلقوں میں دوبارہ گنتی سے متعلق محفوظ فیصلہ سنادیا۔ اور (ن) لیگ کے امیدواروں کی اپیلیں منظور کرلیں۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے این اے 154 لودھراں، این اے 81 گوجرانوالہ اور این اے 79 گوجرانوالہ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا۔ سپریم کورٹ نے پی پی 133 ننکانہ صاحب سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانا محمد ارشد کو بھی بحال کر دیا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 2:1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو احترام کا مستحق ہے، لاہور ہائیکورٹ کے ججز نے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران سے متعلق غیر ضروری ریمارکس دیے، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور عزت کا مستحق ہے، الیکشن کمیشن، کمشنر اور ارکان احترام کے حقدار ہیں، بدقسمتی سے کچھ ججز اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے تضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں، ہر آئینی ادارہ اور آئینی عہدیدار احترام کا مستحق ہے۔ ادارے کی ساکھ میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہ احترام کے دائرہ میں فرائض سر انجام دے۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تین آزاد امیدوار این اے 154 سے رانا فراز نون، این اے 81 گوجرانوالہ سے بلال اعجاز اور این اے 79 گوجرانوالہ سے احسان اللہ ورک کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔ ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو، اظہر قیوم نارا اور ذوالفقار احمد نے دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن کمشن سے رجوع کیا۔ دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے (ن) لیگ کے تینوں امیدواروں کو کامیاب قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آزاد ارکان نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کے تحت چیلنج کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوں امیدواروں کو کامیاب امیدوار قرار دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف (ن) لیگ کے ارکان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد (ن) لیگ کے تینوں اراکین قومی اسمبلی کامیاب قرار پائے۔ دوسری جانب جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں آئینی سقم نہیں کہ مداخلت کی جائے۔ تحریری فیصلے میں جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی موجود ہے جس میں انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق انتخابی تنازعات پر الیکشن ٹربیونل سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے، انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا کردار ختم ہو جاتا ہے، انتخابی نتائج سے متاثرہ فریقین الیکشن ٹربیونل سے رجوع کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمشن کا انتخابی تنازعات پر دیا گیا حکم دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، لاہور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازعہ پر نہیں الیکشن کمشن کے اختیارات پر فیصلہ دیا، آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کسی بھی غیرقانونی اقدام کا جائزہ لینے کیلئے بااختیار ہے، ریٹرننگ افسر کا کام محض ڈاکخانہ نہیں ہوتا، دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنا ریٹرننگ افسر کا اختیار اور استحقاق ہے۔ دربارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ختم ہونے سے انتخابی عمل متنازعہ ہوگا۔ ریٹرننگ افسروں اور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازعہ پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران انتخابی تنازعہ پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
ووٹوں کی دوبارہ گنتی : لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم ،3لیگی ارکان قومی اسمبلی کی درخواستیں منظور رکنیت بحال
Aug 13, 2024