لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ سامنے آتے ہی کچھ مخصوص لوگوں نے یوں شور و غل مچانا شروع کر دیا ہے جیسے انہیں پھانسی کا حکم ہو گیا ہو حالانکہ یہی لوگ حکومت کی ریکارڈ توڑ کرپشن‘ کراچی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ‘ ملک میں دہشت گردی‘ ڈرون حملوں میں عام قبائلیوں کی ہلاکت‘ معصوم بچوں سے زیادتی و قتل اور خواتین پر تیزاب پھینکنے کے ہزاروں واقعات پر یوں خاموش رہتے ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان لوگوں کی زبانیں بھارت کی جانب سے بگلیہار ڈیم سمیت درجنوں متنازعہ ڈیموں کی تعمیر‘ غزہ اور برما میں ہزاروں مسلمان مردوں‘ عورتوں‘ خواتین اور بچوں کے بہیمانہ قتل عام پر بھی مفلوج رہتی ہیں لیکن جونہی بات کالا باغ ڈیم جیسے انتہائی اہم منصوبے کی ہوتی ہے یہ لوگ چابی بھرے کھلونے کی طرح متحرک ہو جاتے ہیں اور مخالفت کا واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی ایک سیاسی جماعت ہمیشہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں اس قدر سرگرم عمل رہی ہے کہ ایک لیڈر نے یہاں تک دھمکی دے دی تھی کہ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو اسے ”اڑا“ دیا جائیگا حالانکہ خیبر پختونخواہ ہی کے سابق وزیراعلیٰ اور سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک کالا باغ ڈیم کو پاکستان کی بقاءکے لئے ناگزیر قرار دے چکے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکومت نے بھی ان لوگوں کے آگے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں جنہیں ملک و قوم کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت صرف چند مخصوص سیاسی جماعتوں تک محدود ہے۔ جہاں تک چاروں صوبوں کے عوام کا تعلق ہے تو اکثریت کالا باغ ڈیم کی اہمیت سے آشنا اور اس کی تعمیر کے حق میں ہے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی کالا باغ ڈیم منصوبہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا اعلان کرکے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ اسے ملک کی تعمیر و ترقی سے کس قدر دلچسپی ہے لیکن بعدازاں ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اس نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اتفاق رائے سے مشروط کرنے کا راگ الاپنا شروع کر دیا کیونکہ اسے بھی معلو ہے کہ کبھی ہوگا نہیں کیونکہ وہ لوگ کبھی بھی کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے نہیں کریں گے جن کی زندگیوں کا مقصد ہی پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا ہے۔ اگر صرف ایک محب وطن پاکستانی بن کر سوچیں اور حقائق کا جائزہ لیں تو اس حقیقت میں ایک فیصد بھی شبہ نہیں رہ جاتا کہ کالا باغ ڈیم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے اور یہ پاکستان کو ترقی کی ایک نئی راہ پر لے جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف تو ملک کو بجلی اور گیس کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور دوسری طرف صنعتوں اور عوام کو بجلی انتہائی مہنگے داموں مل رہی ہے۔ ملک میں تھرمل ذرائع سے پیدا ہونیوالی بجلی کی لاگت تقریباً 19 روپے فی یونٹ جبکہ پانی یعنی ہائیڈل ذرائع سے پیدا ہونیوالی بجلی کی لاگت صرف 90 پیسے فی یونٹ ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت 13.5 روپے فی یونٹ بنتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے کبھی سستی بجلی پیدا کرنے میں دلچسپی دکھائی ہی نہیں۔ کالا باغ ڈیم تعمیر ہونے کے بعد اس سے ابتدائی طور پر 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائیگی جس کی لاگت صرف 2.50 روپے فی یونٹ ہو گی۔ پانچ سال کے اندر بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھ کر 4500 میگاواٹ ہو جائے گی جس سے بجلی کا بحران ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیگا جبکہ حاصل ہونیوالی بجلی کی قیمت صرف ایک روپیہ فی یونٹ ہو گی۔ اس طرح سالانہ 4 ارب ڈالر کی بچت ہو گی جبکہ مجموعی طور پر کالا باغ ڈیم معیشت کو سالانہ 6 ارب ڈالر کا فائدہ دیگا۔ اس پراپیگنڈے میں بھی کوئی حقیقت نہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے کے بعد دریائے سندھ بالکل خشک ہو جائیگا۔ پہلی بات یہ کہ کالا باغ ڈیم صرف وہ سیلابی پانی ذخیرہ کرے گا جو ہر سال نازل ہو کر کھربوں روپے کی زرعی زمین‘ مال مویشی اور فصلوں کے علاوہ ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔ اس تباہی و بربادی کو کالا باغ ڈیم کے ذریعے روکا جا سکے گا۔ دوسری بات یہ کہ دریائے سندھ میں پانی کی صورتحال پہلے ہی زیادہ تسلی بخش نہیں کیونکہ 1960ءمیں جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے انتہائی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین دریا بھارت کو سونپ دئیے تو معاہدے میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ اگر پاکستان اپنے دریاﺅں کا پانی استعمال میں نہیں لاتا اور سمندر میں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے تو بھارت کو ان دریاﺅں پر ڈیم بنانے کا حق بھی حاصل ہو گا چنانچہ اسی شق کا استعمال کرتے ہوئے اس نے دریائے سندھ پر بھی بہت سے ڈیم تعمیر کر لئے ہیں جبکہ پاکستان میں کچھ عناصر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرکے یہ بات یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں کا فائدہ بھی بھارت کو ہی ہو لہٰذا یہ سمجھنا ہرگز غلط نہیں کہ کالا باغ ڈیم کے مخالف دراصل بھارت کے ہمدرد اور اس کے ترجمان ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینئر نائب صدر عبدالباسط نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بھارت پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کروانے کے لئے سالانہ پندرہ ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ حکومت عوام کی توجہ کالا باغ ڈیم سے ہٹانے کے لئے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا رسمی اعلان کر دیتی ہے لیکن حقیقت میں بھاشا ڈیم تعمیر کر پانا ممکن نہیں‘ کم از کم موجودہ حالات میں تو بالکل ہی ممکن نہیں کیونکہ اس کی تعمیر کے لئے اندازاً دس سال سے زائد کا عرصہ درکار ہو گا اور تعمیر پر 12 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی۔ یہ صرف بھاشا ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ 150 میل لمبی سڑک تعمیر کرنا پڑے گی جس پر تقریباً 6 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور ڈیم کی تعمیر کے علاوہ مزید 6 سال صرف ہوں گے جبکہ ڈیم سے بجلی حاصل کرنے کے لئے 300 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بچھانا پڑے گی جس پر 3 ارب ڈالر مزید لاگت آئے گی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ حکومت کے پاس بھاشا ڈیم تعمیر کرنے کے لئے وسائل نہیں جبکہ کوئی بھی اس کےلئے فنڈنگ کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف کالا باغ ڈیم کے لئے انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے‘ کالونی بھی بنی ہوئی ہے اور فنانسر بھی پیسہ دینے کو تیار ہیں۔ مختصراً یہ کہ دنیا کا سب سے زیادہ قابل تعمیر ڈیم ہے جو صرف پانچ سال کے قلیل عرصہ میں تیار ہو جائے گا جبکہ اس سے سالانہ جو 6 ارب ڈالر کا فائدہ ہو گا اس سے نہ صرف بھاشا ڈیم بلکہ مزید کئی ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ یہ پراپیگنڈہ بھی غلط ہے کہ کالا باغ ڈیم سے فائدہ صرف پنجاب کو اور بقیہ تین صوبوں کو نقصان ہو گا۔ پنجاب پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم سے کسی بھی قسم کی رائلٹی نہیں لے گا اور اس کے علاوہ بھی اپنے سندھی‘ بلوچی اور خیبر پی کے میں رہنے والے بھائیوں کیلئے ممکن قربانی دینے کو تیار ہے۔ کالا باغ ڈیم سے نقصان صرف اور صرف ان لوگوں کو ہو گا جو دراصل بھارت کی زبان بولتے ہیں پاکستان کے لئے انتہائی فائدہ مند منصوبے کی مخالفت کرکے دراصل ملک دشمنوں کے عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔