بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام تنجیل سونا‘ کاپر اور جوہری مصنوعات میں استعمال ہونے والے ذرات کا ایسا خزینہ ہے جس کی عالمی منڈی میں کم از کم مالیت بھی کئی ٹریلین ڈالرز ہے ڈالر کی قدر گھٹتی‘ بڑھتی ہے جبکہ سونے کی قیمت تواتر سے بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا غیر معمولی خطے کی اہمیت‘ افادیت اور قیمت تصور سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایسے خزانے اصولی‘ قانونی اور زمینی قوانین کے مطابق ریاستی ملکیت ہیں۔ یہ ادلتی‘ بدلتی صوبائی یا وفاقی حکومت اور حکمرانوں کا مال غنیمت نہیں کہ جس کو جب چاہیں‘ بیچ دیں اور خود باہر بھاگ جائیں۔بینظیر نے اپنے دور اول میں نجکاری‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور صوبائی خودمختاری کی پالیسی اپنائی۔ جس کی بنیاد پر ریکوڈک میں غیر ملکی کان کن کمپنیوں سے رابطے شروع ہوئے۔ 1991ءمیں غیر ملکی جے وی (Joint- JV Venture) نے بلوچستان حکومت سے معاہداتی تحریک کیلئے کام کیا اور 1993ءمیں غیر ملکی کمپنی BHP اور JV نے بذریعہ BDA (بلوچستان ترقیاتی اتھارٹی) بلوچستان سرکار 29 جولائی 1993ءمیں مشترکہ طور پر کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ جسے SHEJVA‘ (Chaghi Hills exploration Joint Venture Agreement) کہا گیا۔ مذکورہ غیر ملکی کمپنی نے نام نہاد کان کنی کی ابتدائی مشترکہ یادداشت کا معاہدہ جنوبی افریقی کان کن کمپنی کو 60 ملین ڈالر میں بیچ دیا جس نے بعدازاں یہی یادداشتی معاہدہ 2006 میں 260 ملین ڈالرز میں TCC کو فروخت کر دیا جس نے 6 نومبر 2012ءکو ICSID (International Centre for Settlement of Investment dispertes) پر ریکوڈک کان کنی لیز پر فیصلہ محفوظ کرا لیا۔ 16 نومبر 2012ءکو عدالت عظمیٰ پاکستان نے وفاقی حکومت عالمی عدالت کے ممکنہ منفی فیصلے کے ضمن میں تنبیہ کی اور وضاحت طلب کی۔ آج یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ پاکستان کے زیرسماعت ہے۔پاکستان کا ذرہ ذرہ سونا اور کندن سے زیادہ قیمتی ہے جس کو لوٹنے کیلئے عالمی اتحادی لٹیرا برادری اپنے مقامی ہمنوا احباب اور احزاب کی مدد سے سرگرم عمل ہے۔ پاکستان کے منفرد خزانوں اور اداروں کو لوٹنے کیلئے نجکاری‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور صوبائی خودمختاری کی نام نہاد پالیسی اپنائی گئی ہے۔ پاکستان میں بجلی (توانائی) کا بحران اور ریکوڈک خزانے کے فروخت/ شرکت داری کے مہلک اثرات نوشتہ¿ دیوار ہیں۔چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری ایک دردمند محب وطن ہیں۔ جنہوں نے چاغی کے ریکوڈک خزانہ سے کئی ہزار گنا کم مالیت کی سٹیل مل کی نجکاری اور نام نہاد غیر ملکی سرمایہ کاری کے سکینڈل کو سوموٹو فیصلہ کرکے قومی ادارے کو بچایا۔ ریکوڈک خزانہ بھی ریاستی ملکیت ہے جیسے قومی اثاثہ قرار دے کر نہ صرف پاکستان میں آنے جانے والے خودغرض اور غیروں کے ہمنوا حکمرانوں کی دستبرد سے بچایا جائے بلکہ غیر ملکی عالمی لٹیرا کمپنیوں BHP‘ BG اور TCC کے نام نہاد معاہداتی شکنجے سے بھی محفوظ رکھا جائے.... اگر ریکوڈک کو قومی اثاثہ قرار دے دیا جائے تو مذکورہ خزانے سے پاکستانی عوام اور حکومت کی خستہ مالی حالت بھی یکسر بدل سکتی ہے۔ ریکوڈک خزانہ پاکستان میں خوشحالی‘ خودمختاری اور ترقی کا وہ زینہ ہے جو ملک کے اندر نہ صرف بیروزگاری بلکہ غربت کا خاتمہ بھی کر دے گا۔ اگر میاں نواز شریف مثبت توجہ کریں تو یہ خزانہ ان کی سابق خودانحصاری کی پالیسی کا بہترین ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ قومی اداروں‘ اثاثوں اور خزانوں کو نجکاری‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور صوبائی خودمختاری کے پردے میں اونے پونے دام بیچا نہ جائے بلکہ قومی سطح پر ایسی تکنیکی کمپنیاں بنائی جائیں جن کی مہارت اور مشینری غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں سے سستی اور اچھی ہوں۔ اگر پاکستان کے سائنسدان دنیا کا بہترین اور سستا ترین جوہری بم بنا سکتے ہیں تو ریکوڈک خزانے سے مستفیض ہونے کیلئے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر نہر سوئز اور پانامہ قومی اثاثہ قرار دے کر غیر ملکی دستبرد سے بچائی جا سکتی ہے تو ریکوڈک خزانہ کیوں نہیں بچایا جا سکتا؟بدقسمتی سے غیر ملکی لٹیرا کمپنیوں نے پاکستان کے بہترین وکیلوں کو بھاری بھاری فیس دے کر اپنا بنا رکھا ہے بلکہ یہی بعدازاں جج بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے معروف اور محب وطن وکلاءسے التماس ہے کہ وہ دنیا کے عظیم اور کامیاب ترین وکیل قائداعظم کی اصولی پالیسی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔ قائداعظم نے وکالت کے ابتدائی 3 سال فاقہ کر لیا مگر ظالم اور غاصب کے وکیل بننے سے انکار کر دیا۔ ریکوڈگ خزانے کے معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بلوچستان کان کنی قوانین اور لیز Minning Lease کے راہنما اصول بھی ان قابل پاکستانی وکیلوں نے مرتب کئے ہیں جو مذکورہ غیر ملکی کمپنیوں کے قانونی مشیر اور وکیل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بڑوں کو راہ راست پر رکھے۔ اھدنا صراط المستقیم
ریکوڈک خزانے کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے
Dec 13, 2012