اسلام آباد (رستم اعجاز ستی) فیئر ٹرائل بل مجریہ2012 کی مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف میں مختصر سی بحث کے بعد اچانک منظوری سے شکوک و شبہات نے جنم لیا، کمیٹی ممبران متفق تھے کہ موجودہ ملکی حالات میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے تاہم انکا موقف تھا کہ مجوزہ بل کی شقوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ اس سلسلے میں ممبران نے امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں رائج قوانین سے اسکا تقابلی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن منگل کو مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کے ممبران کے تحفظات کے باوجود اسکی منظوری سے صورتحال خراب ہو گئی، نائن الیون کے بعد سے مختلف قومیتوں کو یہ تجربہ ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے معمولی باتوں کو بنےاد بنا کر ایسا قانونی کیس بنا سکتے ہیں جس سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہو سکتا ہے، اس صورتحال میں مجوزہ بل کا باریک بینی سے جائزہ لینے کا مطالبہ جائز تھا جبکہ کمیٹی ارکان اس بات پر متفق تھے کہ ہمارے ادارے ملکی دفاع کےلئے ناگزےر ہیں اور انہیں مضبوط ہونا چاہیے، اپوزیشن کا اعتراض تھا کہ اس بل سے عام شہری کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے اور نجی زندگی میں مداخلت کا راستہ کھل جائے گا، ریکارڈ میں روبدل روکنے کےلئے کوئی شق موجود نہیں اور موثر چیک کے بغیر یہ قانون سیاسی مخالفین کےخلاف انتقامی کارروائی کےلئے استعمال ہو سکتا ہے، مجوزہ بل میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو استثنیٰ حاصل ہے ان پر عدالتی حکم کا اطلاق نہیں ہوگا، ایسی صورت میں وارنٹ صرف متعلقہ سپیکر یا چیئرمین یینٹ کی اجازت سے جاری ہو گا۔ مجوزہ بل کے تحت الیکٹرانک پیغامات، ایس ایم ایس، ٹیلی فون، موبائل فون کالز اور آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کو ایف آئی آر کے اندراج کےلئے استعمال کیا جا سکے گا، اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سول سوسائٹی کی نمائندہ غزالہ من اللہ نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون کوئی بھی غلط نہیں ہوتا تاہم اسکا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیئے، مجوزہ بل بھی وقت کا تقاضا ہے کہ اور عدالتی دائرہ کا ر میں اسکو استعمال کیا جانا چاہیئے، انہوں نے کہا کہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی قرار دیا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کے معاملات میں بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پہلے شک کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار کرلیاجاتا تھا اب اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسکے لئے بھی یہ قانون اچھا ہے۔