ڈرون، قراردادوں کی منظوری سے رک سکتے ہیں؟

قومی اسمبلی میں ڈرون حملوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر قرارداد منظور کر لی گئی ہے، اس سے پہلے بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں ڈرون حملوں کیخلاف قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں لیکن ڈرون حملوں کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھی ایک مرتبہ پھر ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایسے طریقے استعمال کئے جائیں جن کے منفی اثرات نہ ہوں۔ اس سے پہلے بھی وہ متعدد مرتبہ ڈرون حملوں کی مذمت کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا رہا ہے اب ایشیائی پارلیمانی اسمبلی نے ڈرون حملوں سمیت ہر قسم کی بیرونی جارحیت کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا نام دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکلز اور اقوام متحدہ کے تمام قوانین اور اسکی شقوں کے مطابق کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے کوئی بھی ملک جارحیت کا مرتکب نہیں ہو سکتا چاہے ایسی جارحیت دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہی کیوں نہ کی جائے لیکن غور طلب پہلو ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں تیسری حکومت منصب اقتدار پر براجمان ہے کہ جس دورانیے میں امریکہ بہادر کی طرف سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وقت نے یہی ثابت کیا۔ پرویزمشرف تسلیم کر چکے کہ ڈرون حملوں کی امریکہ کو اجازت دی تھی مگر انہوں نے اپنے اعتراف کے باوجود کہا تھا کہ اگر ہماری حکومت کے دوران ایسا معاہدہ موجود بھی تھا تو موجودہ حکومت اپنی پالیسی کا خود تعین کر سکتی ہے۔ اس اہم نکتے کو ڈرون حملوں کے تناظر میں کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے جب پرویزمشرف کے بعد پانچ سال تک صدرمملکت رہنے والے آصف علی زرداری ، وزرائے اعظم رہنے والے سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف دونوں ہی ڈرون حملوں پر زبانی کلامی احتجاج کرتے رہے اور ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران ڈرون حملے جاری ہیں۔ وزیراعظم کے احتجاج کے باوجود ڈرون حملوں کا دائرہ کار خیبر پی کے کی حدود کے اندر تک وسیع ہونے پر تحریک انصاف کا پشاور لنک روڈ پر دھرنا دے کر نیٹوسپلائی لائن روکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز ہی امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے پاکستان کے دورے کے دوران وزیراعظم سے ملاقات میں نیٹوسپلائی لائن روکنے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو اسکی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی، وزیر شزیر اور تمام عہدیداران بھڑکیں لگا رہے ہیں کہ اگر تحریک انصاف نیٹوسپلائی لائن روک کر ڈرون حملے بند کروانے میں اس قدر سنجیدہ ہے تو پھر خیبر پی کے کی حکومت یو ایس ایڈ کے ذریعے چلنے والے پروگرامز کیوں بند کرتے ہوئے امریکی امداد کا باب بند نہیں کر دیتی۔ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت ایسی تمام امداد لینے سے انکار کرنے جا رہی ہے اگر پنجاب حکومت ایسا کر سکتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کو کیا مسئلہ ہے۔ پنجاب کی طرح وفاق میں بھی مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے۔ ایک بنیادی نکتہ جسے سب اجاگر کرتے ہیں کہ وہ حکومت جو آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہی ہے اور غیرملکی امداد کے سہاروں اپنی حکومتی کارکردگی بنانے کے در پر ہے وہ کیسے ڈرون حملے بند کروانے کے لئے امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کر سکتی ہے یقینا ایسا ہی ہے۔ اگر موجودہ وفاقی حکومت ڈرون حملے بند کروانے میں سنجیدہ ہوتی اور وزیراعظم کی ڈرونز کے بارے میں تمام تر مذمتی باتیں اور احتجاجی بیان حقیقت ہوتے تو کبھی بھی تحریک انصاف کی طرف سے نیٹو سپلائی لائن روکنے کی مخالفت نہ کی جاتی اور جب امریکی وزیردفاع پاکستانی امداد روکنے کی دھمکی دے رہے تھے تو انہیں باور کروا دیا جاتا کہ پاکستان کی حکومت کو امریکی ڈالروں سے زیادہ اپنی قوم کی زندگی اور آزادی عزیز ہے۔ انکے اب تک کے تمام حکومتی اقدامات اور طرزعمل یہی ثابت کر رہے ہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرح تاحال اپنی خودمختار اور آزاد داخلی اور خارجی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام ہیں۔ داخلی محاذ پر گذشتہ ایک عشرے سے ہماری پالیسیاں غیرملکی طاقتوں کے شکنجے میں ہے جس کے نتیجہ میں وطن عزیز دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے یہ اسی غیرموثر اور غائب خارجی پالیسی کا پھل ہے کہ بھارت کیساتھ ہرپل دوستی کی پینگیں بڑھانے کی باتیں اور جستجو کی جاتی ہے۔ اس جستجو کا جنازہ آئندہ بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں نکلنے والا ہے جسکے بعد حکمرانوں کیلئے مزید مسائل سامنے آئینگے۔ ڈرون حملے رکوانے کیلئے ضروری ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرے اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیمطابق میاں محمد نوازشریف کے امریکہ کیساتھ ڈرون حملے کرنے کے بارے میں خفیہ معاہدے موجود نہیں ہے تو پھر ایسا بنیادی فرض ادا کرنے سے ہماری حکومت قاصر کیوں ہے؟

ای پیپر دی نیشن