بہت کچھ کرنے کے باوجود خود کو ناکام سمجھتا ہوں‘ ملکی نظام سو سال میں بھی درست نہیں ہو گا : افتخار چودھری

بہت کچھ کرنے کے باوجود خود کو ناکام سمجھتا ہوں‘ ملکی نظام سو سال میں بھی درست نہیں ہو گا : افتخار چودھری

اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے فوری سیاست میں آنے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں خود کو لیڈر سمجھتا ہوں نہ ہی اپنے ہاتھوں پر سیاست کی کالک لے کر دنیا سے جانا چاہتا ہوں، پاکستان کے چار بڑے مسائل بوسیدہ اور غیر فعال سرکاری نظام‘ نااہل سیاستدان‘ بیوروکریسی اور جرنیل جو خود کو عوام کا خادم ماننے کے لئے تیار نہیں‘ موجودہ نظام کی درستگی کے لئے بہت کچھ کرنے کے باوجود خود کو ناکام سمجھتا ہوں‘ بگاڑ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے سو سال بھی اس نظام کی درستگی کے لئے کم ہونگے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ایک انٹرویو میں افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدلیہ کے اقدامات کے نتیجہ میں اب جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، آئندہ اگر کسی نے شب خون مارنے کی کوشش کی تو عدلیہ اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی اگر میں اس وقت مشرف کے سامنے کھڑا نہ ہوتا تو بینظیر بھٹو اور نہ ہی نواز شریف کی پاکستان میںواپسی ممکن ہوتی اور آج بھی مشرف ہی حکمران ہوتا۔ میرا سیاست میں آنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ موجودہ نظام ہے اور اسی کی وجہ سے پٹواری اور کانسٹیبل تک فرعون بن جاتے ہیں۔ نظام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وزیراعظم اور صدر کے غیر قانونی احکامات کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں چیف سیکرٹری‘ آئی جی اور وفاقی سیکرٹریوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے لیکن اگر لوگوں کے مسائل اور ان کی پریشانیاں دیکھی جائیں ‘ قانون و انصاف کے نظام کو دیکھا جائے‘ تعلیم‘ روزگار اور صحت کے سسٹم کو دیکھا جائے‘ ریاستی اداروں کی بدمعاشی اور سیاستدانوں کی ہوس اقتدار کو دیکھا جائے تو میں خود کو ناکام سمجھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر میں سو سال تک بھی کام کروں تو بھی اس نظام کی درستگی کیلئے کم ہوگا۔ پاکستان کے چار بڑے مسائل بوسیدہ اور غیر فعال سرکاری نظام‘ نااہل سیاستدان‘ بیوروکریسی اور جرنیل جو خود کو عوام کا خادم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں آج بھی بعض عناصر پاکستان کو برطانوی کالونی اور خود کو ہزمجسٹی کا نمائندہ سمجھ کر لوگوں سے برتاﺅ کرتے ہیں، جب تک ان کو وائسرائے سے عوام کا خادم نہیں بنایا جاتا مسائل حل نہیں ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام نے آج تک خود کو آزاد اور خودمختار نہیں سمجھا، وہ آج بھی کسی نہ کسی طرح آقا کے سامنے درخواست گزار ہیں، عوام خود کو درخواستوں‘ عرضیوں اور اپیلوں تک محدود سمجھتے ہیں، وہ خود کو قوم نہیں سمجھتے۔ ہم نے انہیں قوم ہونے کا احساس دلانا ہے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آنے کے سوال پر کہا کہ وہ خود کو لیڈر نہیں سمجھتے، میں صرف ایک جج ہوں اور جج کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ لوگ مجھے قانون دان اور زیادہ سے زیادہ اچھے قانون دان کی حیثیت سے یاد رکھیں۔
افتخار چودھری

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...