ایک انوکھی پرورش

پریشانی سے نڈھال اور غم سے چور بادشاہ کو کسی پل آرام نہیں آ رہا تھا بیٹے کی شکست کا غم اسے کھائے جارہا تھا اضطراب اور مایوسی کے عالم میں وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ اس کا بیٹا میدان جنگ میں شکست کھا کر لوٹ رہا ہے اور اسکے پیچھے دشمن کا لشکر ہے۔ ملکہ نے بڑے اطمینان سے کہا ’’ شاہ عالم! آپکوملنے والی خبر غلط ہے‘‘۔ ملکہ کی یہ بات سن کر بادشاہ بڑا حیران ہوا۔ اس نے یقین دلانے کی لاکھ کوشش کی مگر بے سود ثابت ہوئی۔ اگلے دن خبر ملی کہ شہزادہ فتح یاب ہو کر آ رہا ہے۔ ماں فرط جذبات سے اظہار تشکر کیلئے سجدے میں گر گئی۔ ادھر بادشاہ اپنی بیگم کے یقین پر حیران تھا۔ پوچھنے لگا کہ اتنا کامل یقین کہ تم نے میرے مخبروں کی اطلاع کو سراسر جھٹلا دیا۔ ملکہ نے جواب دیا کہ خدا نے میری لاج رکھی ہے اور تو کوئی خاص بات نہیں۔ مگر بادشاہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی بڑی وجہ ہوگی۔ آخر ملکہ نے مجبور ہو کر کہا کہ جب شہزادہ میرے وجود کا حصہ بنا تو میں نے خدا سے عہد کیا کہ میرے پیٹ میں کوئی حرام غذا نہیں جائے گی کیونکہ حلال غذا سے اعلیٰ اخلاق اور اچھے مزاج بنتے ہیں اور حرام خوراک سے انسان کا خمیر فاسد ہوتا ہے اور برائی اسکی سرشت میں شامل ہو جاتی ہے چنانچہ شہزادے کی ولادت کے وقت میں نے ایک لقمہ بھی ایسا نہ کھایا جو حرام ہو یا جس پر حرام ہونے کا شائبہ ہو اور جب شہزادہ پیدا ہوا تب بھی میں نے بڑی احتیاط کی تاکہ حرام غذا دودھ بن کر اسکے اخلاق پر برا اثر نہ ڈالے۔ جب بھی اسے دودھ پلاتی تو دو رکعت نفل ادا کرتی۔ اس لئے میرے بیٹے کے اخلاق بہت اچھے تشکیل پائے۔ شہادت چونکہ ایک اچھا خلق ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ میرا بیٹا شہید تو ہو سکتا ہے مگر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ میں نے خدا سے عہد نبھایا تو مجھے یقین کامل تھا کہ خدا بھی اپنے بندوں سے وعدہ نبھاتا ہے اسلئے میرے یقین کامل نے آپکے مخبروں کی اطلاع کو ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میرا خیال سچ ثابت ہوا اور میرا بیٹا بہادری سے لڑتا ہوا فتح یاب ہو کر واپس آیا۔ بادشاہ ملکہ کی بات سن کر اشکبار ہو گیا۔ اس کے آنسو یقینا اس عظیم عورت کی پرورش کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ عظیم ماں کون تھی یہ خاتون امیر عبدالرحمن والئی کابل کی بیوی تھیں۔ جس نے رزق حلال کی برکت اور اسکے انسانی اخلاق پر مثبت اثرات کو عملاً دنیا کے سامنے ثابت کر دکھایا۔اور جو حلال پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے کھایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔رزق حلال کا حاصل کرنا جتنا اہم ہے اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو پاک اور طاہر رکھا جائے ہر انسان اس دنیا میں اپنا رزق لے کر آتا ہے اللہ تعالیٰ اسکی قسمت میں رزق لکھ دیا ہے۔ اس کو حلال اور حرام دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔ خواہ وہ حلال اختیار کرے یا حرام، اس کا رزق جتنا لکھا جا چکا ہے۔ وہ اسے ضرور ملے گا۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا! جس شخص نے حلال ذرائع سے دنیا طلب کی تاکہ خود کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچائے رکھے اور اپنے اہل و عیال کیلئے روزی مہیا کرے اور اپنے پڑوسی کیساتھ حسن سلوک کرے وہ قیامت کے روز اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ بندہ کامل کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے حرام طریقے سے دنیا اس لئے کمالی کہ وہ دوسروں سے مال و دولت میں بڑھ جائے دوسروں پر اپنی بڑائی جتائے نمود و نمائش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غضبناک ہو گا۔حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ جب عالم شباب کو پہنچے تو ایک روز اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے امی جان: شکر ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی تہجد کی نماز قضا نہیں کی۔ والدہ محترمہ نے جواب دیا بیٹا اس میں تیرا کوئی کمال نہیں تیری ماں کے دودھ کا کمال ہے خدا کی قسم میں نے کبھی تجھے دودھ وضو کے بغیر نہیں پلایا۔وہ اپنے بچوں کی پرورش بڑے انوکھے انداز میں کرتی تھیں اور یقین رکھتی تھیں کہ خدا کے ذکر کی خوراک سے بچے کے دماغ کی نشوونما ہو گی درود و سلام کی کثرت سے ذہانت ملے گی۔ قرآن کی تلاوت سے اسکا دل روشن ہو گا۔ اپنے نبیؐ کی محبت انکے خون میں گردش کریگی تو خوبصورت اور روشن چہرے وجود میں آئینگے۔ رزق حلال سے اعلیٰ اوصاف پیدا ہونگے۔ اور نماز جیسی عبادت سے سکون قلب حاصل ہو گا۔ آج ہم اپنی نگاہیں ہر طرف دوڑاتے ہیں تو نگاہیں مایوس پلٹ آتی ہیں دل مضطرب ہو جاتا ہے کہ کہاں گئے وہ لوگ، وہ مائیں ، وہ باپ اور وہ بیٹے، زندگی کدھر جا رہی ہے۔ یہ کیسی ترقی کی دوڑ ہے کہ جس میں شامل ہونے کیلئے مائیں اپنے دوپٹوں سے اور خوف خدا سے غافل ہو گئیں۔ باپ ہمیشہ کمانے کی مشین بن گئے اور یاد خدا سے بے نیاز ہو گئے بیٹے مادیت پرستی اور عیش میں پڑ گئے ادب و احترام، محبت اور اطاعت جیسے جذبات سے عاری ہو گئے۔ باپ اپنی زندگیاں اسوہ رسول ؐسے سنوار لیں تو عجب نہیں کہ بیٹوں کی زندگیاں حضرت علیؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت سید علی ہجویریؒ اور یگر سلف صالحین کے روشن کردار کا آئینہ بن جائیں اور بیٹیاں، خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہراہؓ، حضرت زینبؓ، اور حضرت رابعہ بصریؒ کی پاکبازی و پاکدامنی زہد و تقویٰ اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حامل بن جائیں۔

ای پیپر دی نیشن