”عمران کے چنے بادام کے بھاﺅ!“

وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستان تحریکِ انصاف کو غیر مشروط طور پر مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی لیکن جب مذاکرات کا پہلا دور شروع ہُوا تو وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے ایک ایسی شرط عائد کردی ہے کہ جو شاید عمران خان مانیں یا نہ مانیں؟

”عمران خان کی زبان کو لگام“
جناب پرویز رشید نے کہا کہ ”عمران خان اگر مذاکرات چاہتے ہیں تو اپنی زبان کو لگام دیں!“ بہرحال پرویز صاحب کا انداز شریفانہ ہے ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ”مذاکرات کے بارے میں عمران خان کا رویہ مناسب نہیں ہے ¾ میں اُن کی زبان میں لگام ڈال دُوں گا۔“ انہوں نے اپنے مُنہ میں لگام دینے یا ڈالنے کا کام خود عمران خان پر چھوڑ دِیا ہے۔ وہ جِس رنگ کی لگام چاہیں اپنی زبان میں دے دیں یا ڈال لیں۔ ”بُوڑھی گھوڑی لال لگام“ کی ضرب اُلمِثل جناب عمران خان پر صادق آتی ہے یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم؟ خان صاحب 62 سال کی عُمر میں بھی شادی کے خواہشمند ہیں اور ساٹھے پاٹھے کہلاتے ہیں۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی بنائی اور ”سوشلزم“ کا نعرہ بلند کِیا تو جماعتِ اسلامی کے بانی امیر مولانا مودُودی نے امریکہ سے پِتّے کا آپریشن کرا کے لوٹنے کے بعد لاہور ائر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ”ہم سوشِلسٹوں کی گُدّی سے زبان کھینچ لیں گے۔“ بادشاہوں کے دَور میں بعض مجرموں کی اُن کی گُدّی سے زبان کھینچی جاتی تھی تو اُن کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ جب مولانا مودُودی کو کسی رازداں نے بتایا کہ ”بھٹو صاحب سوشلزم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔“ تو انہوں نے اپنا ارادہ بدل دِیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جناب پرویز رشید کی ”وارننگ“ کے مطابق جناب عمران خان نے خُود اپنی زبان کو لگام نہ دی تو پرویز صاحب کیا کریں گے؟
”اکھّیاں دِی لالی؟“
بھارتی اخبار ”ٹائمز آف اِنڈیا“ کے مطابق ”بھارت میں 15 ہزار سے زیادہ پاکستان غیر قانونی طور پر مُقِیم ہیں۔“ خبر کے مطابق یہ ایسے پاکستانی ہیں جِن کے وِیزے کی مُدّت ختم ہو چُکی ہے لیکن وہ پاکستان واپس نہیں آئے۔ یہ بات بھارت کی راجیہ سبھا میں وزیرِ مملکت برائے داخلہ مِسٹر کرن راجِیو نے ایک سوال کے جواب میں بتائی۔
جوکوئی پاکستانی وِیزے کی مُدّت ختم ہونے کے بعد بھارت میں قیام کرتا ہے ¾ پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ بھارت یاترا پر جانے والا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو پنجابی کے معروف شاعر اُستاد دامن کی سوچ کا ہمنوا ہے۔ اُستاد دامن نے نئی دہلی کے ایک مشاعرے میں جب اپنا یہ شعر پڑھا کہ
”لالی اکھِّیاں دی پئی دَسدی اے
روئے تُسِیں وی ہو، روئے اسِیں وِی ہاں“
تو مشاعرے کے صدر ¾ بھارت کے آنجہانی وزیرِاعظم پنڈت جواہر لعل کی آنکھوں میں بھی آنسُوآ گئے تھے۔ ہمیں بھارت جا کر ”اکھِّیاں دی لالی“ دکھانے اور دیکھنے والوں کو سختی سے روکنا ہوگا۔
....ہم کو عبث بدنام کِیا ؟
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے پاکستان کے سب سے بڑے سونے اور کاپر کے معدنی ذخائر ”ریکوڈک“ کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہُوئے کہا کہ ”وزیرِاعظم میاں نواز شریف ¾ جناب محمود خان اچکزئی اور نواب ثنااللہ زہری پر لگائے جانے والا یہ الزام غلط ہے کہ ”انہوں نے اس منصوبے کو بیچ دِیا ہے“ ہم اِس الزام کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔“ ڈاکٹر عبدالمالک نے یہ بھی کہا کہ ”بلوچستان کے عوام کی مرضی کے خلاف بلوچستان کا ایک پتّھر بھی نہیں بیچوں گا۔“ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کے جذبے کو ”جذبہ¿ صادق“ ہی سمجھنا چاہیے۔ وزیرِاعظم نواز شریف ¾ جناب محمود خان اچکزئی اور نواب ثنااللہ زہری پر لگایا جانے والا الزام سنگین ہے۔ اگر اِس کا فیصلہ عدالت سے کرا لِیا جائے تو دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن بلوچستان کا ایک بھی پتّھر بیچنے کے معاملے میں یہ عوام کہاں سے آ گئے؟ مرزا غالب نے کہا تھا
”ناحق ہم مجبُوروں پر، یہ تُہمت ہے مُختاری کی!
چاہےں سَو وہ آپ کریں ہیں ¾ ہم کو عبث بدنام کِیا؟“
”عمران کے چنے بادام کے بھاﺅ!“
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ”آج عمران خان کے چنے بادام کے بھاﺅ بِک رہے ہیں لیکن کل اُن کے بادام چنے کے بھاﺅ بِکیں گے۔“ شاہ صاحب جہاندِیدہ ہیں انہوں نے بات پتے کی کہی ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہُوا تھا۔ عوام میں اپنی مقبولیت کے دَور میں جناب بھٹو نے لاہور کے جلسہ¿ عام میں اعتراف کِیا تھا کہ ”ہاں! ہاں! میں شراب پِیتا ہُوں، غریبوں کا خُون تو نہیں پِیتا۔“ اِس پر جیالوں نے رقص کِیا اور یہ نعرہ لگایا
”جی اوئے بھٹو جی!
دیسی چھڈّ ولیتی پی!“
لیکن جب بھٹو صاحب کی مقبولیت کا سُورج غروب ہُوا تو انہوں نے اعلان کِیا کہ ”مَیں نے ہفتہ وار چھُٹی جمعہ کی کر دی ہے اور مَیں نے شراب پر بھی پابندی لگا دی ہے۔“ تو بھٹو جئے ہزاروں سال“ کے نعرے لگانے والوں نے کہا ”ہم تو تمہیں غریبوں کے حق میں اِنقلاب لانے کے لئے اقتدار میں لائے تھے اس طرح کے کاموں کے لئے نہیں۔ ہُن کُرسی توں تھلّے اُتّر“۔ جناب آصف زرداری کے بادام بھی اِن دِنوں چنے کے بھاﺅ فروخت ہو رہے ہیں اور وہ بھی صِرف صوبہ سندھ میں۔ ایک ضرب المِثل ہے کہ ”تھوتھا چنا باجے گھنا“۔ ایک پنجابی اکھان ہے ”کھاندی چھولے تے ڈکار بداماں دے“ اِس اکھان کا تعلق علّامہ طاہر القادری کے”اِنقلاب “ سے ہے یا نہیں؟ پھر کبھی بتاﺅ ں گا۔

ای پیپر دی نیشن