عمران مذاکرات چاہتے ہیں تو اپنی زبان کو لگام دیں : پرویز رشید!
نواز شریف اپنے وزراءکی فوج ظفر موج کو چپ کا روزہ رکھوائیں تو شاید مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ جائے۔ ایسے وزراءکی موجودگی میں میاں نواز شریف کو کسی دشمن کی چنداں ضرورت نہیں۔ پرویز رشید ظاہری طور پر تویہاں نواز شریف کے حامی نظر آتے ہیں لیکن انکے بیانات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک دفعہ پھر میاں صاحب کو جدہ بھجوانے کی کوئی حکمت عملی سوچ رہے ہیں۔ اس وقت زبان کو لگام دینا عمران کی نہیں‘ حکومت کی ضرورت ہے اس لئے میاں صاحب کے شردھالو اپنی اپنی زبانوں کو لگامیں دے کر رکھیں تاکہ دھرنے کا کوئی مثبت ڈراپ سین ہو سکے۔ اگر وزیر اطلاعات کا لب و لہجہ اُکھڑا اُکھڑا ہی رہا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب میاں نواز شریف کو یوں گویا ہونا پڑیگا ....
ریزہ ریزہ ہو کے بکھرا ہے خلاﺅں میں بدن
کس قدر مہنگی پڑی ہے چاند سے یاری مجھے
میاں نواز شریف نے جن لوگوں کو چاند ستارے بنا کر ان کے سروں پر وزارتوں کے تاج سجا رکھے ہیں وہ میاں صاحب کو بند گلی میں دھکیلنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ احسن اقبال، اسحاق ڈار منت سماجت کر کے مذاکرات کی میز سجاتے ہیں تو اطلاعات کے سربراہ اس میز کو اُلٹ دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی ٹیم کی چھانٹی کریں اور معاملات کو سلجھانے والے لوگوں کو ذمہ داریاں دیں۔
رانا ثنااللہ نے فیصل آباد والے اتھرے پن کے ذریعے حکومت گرانے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ خود وزارت سے گرے دوسری مرتبہ پرچہ کٹ گیا جبکہ سندھ حکومت نے میاں صاحب کا خوب ساتھ دیا، کوئی دھینگا مشتی ہوئی نہ ہی لاش گری۔ دوست اور دشمن کا فرق واضح ہے۔
٭۔٭۔٭
پچھلے دنوں برداشت کا عالمی منایا گیا تو ہمیں خیال آیا کہ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ضرورت ہے وہ یہی تو ہے۔ ہمارے ہاں برداشت کا کلچر ہی ختم ہو گیا ہے۔ سیاست ہو یا تجارت، دفتر ہو یا بازار جہاں چلے جائیں کیا بچہ کیا بڑا کیا جوان کیا بزرگ سب کے تیور چڑھے رہتے ہیں۔ بات بات پر آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔
کیا زمانہ تھا جب چھوٹی موٹی باتوں پر غلطیوں پہ ایک مسکراہٹ پردہ ڈال دیتی تھی اور لوگ ” تسی لنگ جاﺅ بادشاہو! ساڈی خیر اے“ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر دیتے تھے۔ مگر اب تو ذرا سی بات پر گالم گلوچ تو تکار شروع ہو جاتی ہے جو بالآخر ہنگامہ آرائی اور مار پیٹ پر ختم ہوتی ہے، بعض اوقات تو بقول غالب....
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
والی حالت کے باوجود ہم دوسروں پر الزام لگا کر چڑھ دوڑتے ہیں اور اس حالت میں کئی لوگ بعد میں ٹکور کراتے پھرتے ہیںاور کئی ہسپتالوں کی زینت بنتے ہیں۔ کئی سر پھرے تو آخری آرام گاہ تک پہنچ جاتے ہیں مگر اسکے باوجود ہم برداشت کا بھولا ہوا سبق یاد نہیں کرتے جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔
یورپ میں دیکھ لیں بڑی سے بڑی بات بھی ” سوری“ کہنے سے ختم ہو جاتی ہے اور ہمارے ہاںمعافی کا لفظ ہی داخل دشنام ہو گیا ہے ۔ اسے گالی سے برا سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لفظ بنا ہی معاملہ رفع دفع کرنے کیلئے ہے مگر کوئی کہنے کو تیار نہیں ہوتا یا قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ حالانکہ معافی مانگنے اور معاف کرنے سے زیادہ اچھا عمل کوئی اور نہیں ہے۔ مگر یہ بات ہمارے لوگوں کو یاد کون کرائے۔
٭....٭....٭
کم عمری کی شادی سے ذہنی وجسمانی صحت بدترین مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔ اب لاکھ انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اور خواتین رہنما اس بارے میں سیمینار منعقد کریں۔ بیانات جاری کریں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلتا نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کتنے فی صد لوگ اخبار اور ٹی وی کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور یہ پیغام کتنی فی صد خواتین تک پہنچ پاتے ہیں۔
اصل مسئلہ دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں خواتین کو بیدار کرنا ہے۔ ان میں کم از کم اور کچھ نہیں تو اپنی بچیوں کی زندگی اور مستقبل کے حوالے سے کم عمری کی شادیوں کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے کہ یہ ان بچیوں پر ظلم ہے جو اپنا بوجھ نہیں سنبھال سکتی وہ گھر بار، شوہر، سسرال اور پھر بچوں کا بوجھ کیسے سنبھال پائیں گی۔ ان کے کھیلنے کے دن ان سے نہ چھینیں انہیں بابل کے آنگن میں کچھ دن تو کھیلنے دیں۔ اس کے بعد تو وہی....
بھیا کو دے تو نے محل دو محلے
ہم کو دیا پردیس
والی بات ہونا ہوتی ہے۔ کاش ہمارے مذہبی رہنما بھی مساجدومنبر اور حکومتی اداروں سے ان فرسودہ رواجوں اور رسومات کے خلاف آواز بلند کریں جس طرح دوسری شادی اور اس کی اجازت کے بارے میں مولانا شیرانی آج کل کر رہے ہیں تو ہزاروں جانیں جو زچگی اور صحت کے مسائل کی وجہ سے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے تلف ہوتی ہیں بچائی جا سکتی ہیں۔
اہم مسئلہ دوسری شادی یا اس کی اجازت نہیں کم سن بچیوں کی شادی کا ہے جسے روکنا ہو گا۔ ورنہ نجانے کتنے گھر ہمارے اس فرسودہ خاندانی قبائلی اور ناخواندہ رسومات اور رواجوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ ”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں“۔