آئے بھی وہ، گئے بھی وہ…؟

وہ مسکراتی ہوئی یوں نازل ہوئی۔ جیسے ہمارے درمیان کوئی ناچاقی نہیں تھی کوئی بدمزگی نہیں تھی۔ کوئی کڑوا پن نہیں تھا۔ اور آتے ہی بولیں میں محبت کا سندیش لائی ہوں۔ جیسے کہ ہم محبت کیلئے ترستے بیٹھے تھے۔ خیر نواز شریف صاحب تو محبت میں خودکفیل ہیں۔ البتہ سنا ہے کہ شہباز شریف صاحب کی معروف ترین اور ہنگامہ خیز زندگی میں محبت کے لئے گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ محترمہ سشما سوراج جس طرح تشریف لائیں۔ جس انداز سے آئیں۔ جو ان کا طرز عمل اورجوش و خروش تھا اور جس طرح کا ان کا گیٹ اپ تھا۔ خاتون وزیر خارجہ کو ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ ہم نے تو پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ سماجی و خانگی تعلقات کو بنائے رکھنے میں ایک دانا و بینا عورت کی سیاسی سمجھ بوجھ درکار ہوتی ہے اور عورت اگر سیاست کے محاذ پر اس وطیرہ کیلئے بھیجی جائے تو کامیابی کی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ اس فراخدلی سے مسکراہٹیں نچھاور کرتی رہیں کہ ہمارے سیاست کے سارے مہرے باچھیں کھلائے باہیں پھیلائے نظر آئے گویا…؎
وہ کچھ اس طرح سے آئے مجھے اس طرح سے دیکھا
میری آرزو سے کم تر میری تاب سے زیادہ!
اہل سیاست اچھی طرح سمجھ لیں کہ انڈیا کس قسم کی زبان سمجھتا ہے۔ گزشتہ تین چار ماہ میں مسلمانوں کے ساتھ انڈیا میں جس قسم کا سلوک کیا گیا… اور پاکستانی مہمانوں کی جس طرح تذلیل کی گئی۔ اس کا پاکستان کے اندر اور میڈیا کے اندر ردعمل عین قدرتی تھا۔ دنیا بھر سے بھی منفی تاثر ہی ملا۔ پاکستان نے کسی محاذ پر کمزوری نہیں دکھائی۔ للکار کا جواب للکار سے دیا۔ اور تھپکار کا جواب تھپکار سے دیا۔ ہر بات کے جواب میں کہا میری بلا سے… تو بات انڈیا کی سمجھ میں آگئی۔ ان کے سماج میں بھی صلح صفائی کے لئے خواتین ہی کو بھیجا جاتا ہے۔
یہاں تک تو بات درست ہے… مگر آگے تک یقین کرنا حماقت ہوگی برف پگھلی نہیں برف پر چاندی کا ورق لگایا گیا ہے۔ کیا اس سے پہلے خوش گفتاریاں اور دلداریاں نہیں ہوئیں۔ وفود مسکراتے ہوئے آئے اور باہم دوستی کی باتیں کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ بالآخر نتیجہ یہی سامنے آیا…؎
…وعدہ کر کے مکر گیا!
ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں۔ نہ ہماری زبان کا ذائقہ ابھی کڑواہٹ سے نکلا ہے۔ نہ ہمیں ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار ہے اور نہ ہم اب اتنے ’’چھوٹے کاکے‘‘ ہیں کہ انداز بیاں کو سمجھ نہ سکیں۔ ایک بات یاد رکھیں۔ جس زبان اور لہجے کو انڈیا سمجھتا ہے۔ اسی زبان اور لہجے میں ان سے بات کرنی چاہئیے۔ واجپائی جی نے اپنے کئی انگ مصنوعی لگوائے، مگر کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے سے باز نہیں آئے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کشمیر کی بات نہیں ہوگی تو کوئی بات نہیں ہو گی۔ کشمیریوں کو اپنا حق نہیں دیا جائے گا تو حق دوستی پر بھی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
کمپوزٹ اور کمپری ہینسو میں صرف سپیلنگ کا فرق ہے۔ ناک کو ہاتھ گھما کے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا طعنہ بھی نریندر مودی جی اپنے کاندھے پر سجائیں۔ پانیوں کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے اور پاکستان کو بنجر کرنے کیلئے دھڑا دھڑ ڈیمیں بناتے جائیں۔ سیاچین گلیشئر پر جارحانہ قبضہ بھی جاری رکھیں۔ کسی معاملے میں بھی اپنے رویے میں لچک پیدا نہ کریں۔ بات بات میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ سرحدی آداب کا خیال نہ رکھیں۔ تو ہم نے ان مسکراہٹوں اور دلبریوں کو کیا کرنا ہے… اس وقت پاکستان کے ارباب اقتدار اور سیاست کے بزرجمہروں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور دور اندیشی دکھاتے ہوئے اقتصادی راہداری کے منصوبے سے بھارت کو دور رکھنا ہو گا۔ سالوں پہلے ایک فوجی حکمران نے ان کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ کر دریائوں کا غلط معاہدہ کر لیا تھا۔ خدا کے واسطے ان کی اس اچانک آمد… اور گل گفتاری کا مطلب سمجھ جائیں۔ ورنہ آنے والی نسلیں آپ کو معاف نہیں کریں گی… یہ کہیں… راہ داری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے نیا دام تو نہیں پھیلایا جا رہا؟
حقیقت میں ایشیا کا دل تو پاکستان ہے۔ پاکستان کو نظر انداز کر کے ایشیاء کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی لیکن اگر وہ کہتے ہیں کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ تو پھر ہم برائے دوستی و یکجہتی اس کو مان لیتے ہیں۔ آپ بھی مان جائیں کہ اگر افغانستان ایشیا کا دل ہے تو پاکستان ایشیا کا جگر ہے۔ دل اور جگر دونوں مل کر باہم کام کرتے ہیں۔ تو پورے بدن کانظام صحیح چلتا ہے۔ بعض ڈاکٹر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دل کو اگر روگ لگ جائے تو اس کے ہزاروں علاج نکل آتے ہیں۔ مگر جگر کا روگ بعض اوقات ناقابل علاج بن جاتا ہے۔ اس لئے جگر کا زیادہ خیال رکھیے۔ ہمارے استاد شعراء نے بھی ہمیشہ دل کا ذکر جگر کے ساتھ ہی کیا ہے۔ اور کہا ہے…؎
جگر میں درد دل میں ٹھیس اور آنکھوں میں دو آنسو
دل کا بائی پاس ہو سکتا ہے کئی بار ہو سکتا ہے۔ مگر جگر جواب دے جائے تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ صرف اللہ کا کرم درکار ہوتا ہے۔ دل اور جگر ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں، ایک دوسرے کی رضا سے سارا نظام چلاتے ہیں۔ اگر دل جگر سے منہ پھیر کے چلنا چاہیے۔ اس کی پرواہ نہ کرے، اس سے تعاون نہ کرے تو سارا نظام بدن تلپٹ ہو جاتا ہے۔ ہے تو چھوٹا سا جگر، مگر کام بڑے بڑے کرتا ہے!
افغانستان کے اندر ہمیشہ سے بھارت کا بہت اثر و رسوخ رہا ہے۔ 60ء کی دہائی میں پورے کابل میں ہندوئوں اور سکھوں کی دوکانیں تھیں اور پاکستان کی فیشن ایبل خواتین ہر ہفتے وہاں خریداری کیلئے جایا کرتی تھیں…؎
مجھے تو اس آدمی کے انداز دوستی سے گلہ رہا ہے
جو مار دیتا ہے دوست بن کر جو قتل کرتا ہے یار ہو کر!
شرم الشیخ میں جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جناب صدر حامد کرزئی سے ملے تھے۔ تو مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ان کے انداز گفتگو میں دوستی کی خو نہیں تھی۔ بار بار پوچھتے تھے۔ یہ طالبان کون ہیں۔ پھر مجھے گستاخی پر معافی مانگ کر کہنا پڑا تھا…؎
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
پھر اس شعر میں ترمیم بھی کر دی تھی…؎
پوچھتے ہیں وہ کہ طالبان کون ہیں؟
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس خطے میں امن، خوشحالی اور خوشگواری کیلئے پاک افغان پائیدار دوستی بہت ضروری ہے۔ بشرطیکہ افغانستان بھارت کے غارت گردوں کو پاکستان کیلئے راہ داری فراہم نہ کرے۔ ثبوت تو گزشتہ سال پشاور کے اندوہناک واقعات کے بعد پہنچا دیئے گئے تھے… اب سپر طاقتوں اور بہی خواہوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئیے کہ ایک پرامن اور خوشگوار افغانستان پاکستان کیلئے بہت ضروری ہے۔ ایک پرامن اور خوشگوار پاکستان انڈیا کیلئے بہت ضروری ہے۔ اور ان تینوں متذکرہ بالا ملکوں میں آپسی خوشگوار اور دوستانہ مراسم امن عالم کیلئے ضروری ہیں۔ وہ لوگ اپنے اپنے مفاد کی شاطرانہ بساط پاکستان میں نہ بچھائیںتو بہتر ہو گا۔
اس موقع پر جناب جنرل راحیل شریف کی مساعی کا ذکر کرنا ازحد ضروری ہے۔ جنہوں نے دہشت گردوں کا منہ توڑ کے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا۔ اور ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ اب دنیا دیکھ رہی ہے۔ کہ پاکستان کی افواج اور رعایا اس مسئلے کو باہم مل کر حل کر رہے ہیں… بلا سوچے سمجھے دہشت گردی کے طعنے دینے بند کر دیئے جائیں۔ اور شریمتی سشما سوراج بھی اپنے ملک میں جا کر پاکستان کی رواداری، خاطر داری اور امن عامہ کا پرچار کریں اور بتائیں کہ پاکستان مضبوطی کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑا ہے اور انشاء اللہ اسی طرح مستحکم و مدبر رہے گا۔ اگر اس بار بھی وہ انڈیا جا کر اپنا وطیرہ بدل لیں تو پھر یہی کہنا پڑے گا…؎
ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے
نہ تھی دشمنی کسی سے تیری دوستی سے پہلے!

ای پیپر دی نیشن