کچھ عرصہ قبل کوئٹہ جانے پر ہدایات ملیں کہ پینٹ کوٹ میں بابو نہیں بلکہ بلوچ رہن سہن کے لباس میں آمد و رفت رکھنی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تاوان کیلئے کوئی فون آجائے یا مسنگ پرسن کی فہرست میں تلاش کرتے پھریں- میزبان شلوار قمیض میں دیکھ کر خوش ہوا لیکن کہا رنگ و صورت سے بلوچ یا پٹھان سے زیادہ گورے افسر یا صحافی لگتے ہو۔ جس سے خطرہ اور دام اور بھی بڑھ جاتے ہیں- میرے یہ میزبان ایک بلوچ تھے- خاکسار نے یاد دلایا کہ وہ اس سے قبل بھی زیادہ عرصہ کیلئے سول سروس کے آغاز میں ملٹری اٹیچمنٹ پر عسکری تربیت کیلئے کوئٹہ کینٹ زیادہ عرصہ تک رہ چکے ہیں لہذا زیادہ فکر کی ضرورت نہیں ہے جس پر بتلایا گیاکہ اب بہت فرق ہے - جس پر خاکسار نے اُن سے چند تلخ سوال کرڈالے- جبکہ جوابات کی تائید اور تصحیح حال ہی میں ہمارے ایک ساتھی کالم نگار جی -این-بھٹ کے بلوچستان پر حالیہ کالم اور ان سے گفتگو اور بلوچستان سے شیخ معظم خان مندوخیل کالم نگار کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر مجیب الرحمن شامی ، سید انور قدوائی، سلمان عابد اور سلمان غنی اور پیپلز پارٹی کے بیرسٹرعامرکے بلوچستان کے بارے میں خیالات سے ہوئی جس سے متاثر خاکسار نے کالم کا موضوع بنایا تاکہ امرائ، اشرافیہ ، سِول سروس اور بلوچستان کے اس پار مجموعی احساسات کا اظہاراورکچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے- بلوچ میزبان سے جو سات سوال کئے اس کی عملی وضاحت جی این بھٹ نے کی کیونکہ انکا تعلق بھی کوئٹہ بلوچستان سے ہے اور وہ عملی طور پر کوئٹہ ہی کے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے پلے بڑے ہیں - پہلا سوال کہ علیحدگی کون چاہتا ہے؟ کل نہیں آج کی بات کریں تو جیکب آباد سے کوئٹہ تک پٹھانوں اور بلوچوں کے گھروں اور دہشتگردی سے شدید متاثر ہزارہ برادری نے بھی اپنے گھروں اور قبرستانوں پراپنی سیاسی پارٹی کے ساتھ پاکستان کے جھنڈے بھی لگائے ہوئے ہیں- متوسط طبقہ کے بلوچ ، پختون ، پنجابی، ہزارہ، ہندو، سِکھ، عیسائی سب پاکستان سے محبت کرتے ہیں- کوئی بھی علیحدگی نہیں چاہتا ہاں ماضی میں 1948ء سے لیکر آج تک قریب پانچ بڑے آپریشنز کئے گئے- یہاں تک کہ 1958کے آپریشن میں نواب نوروزخان کو پابندسلاسل اور انکے بیٹوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا - یحیٰی اور بھٹو کے آپریشن میں کئی ہلاکتیں ہوئیں- اکبر بگٹی کی ہلاکت شہادت میں تبدیل ہوئی اور حکومتوںسے نفرت ریاستِ پاکستان کیلئے منفی جذبات کی صورت میں تبدیل ہوگئی لیکن آج بھی بلوچوں کی اکثریت پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتی وہ اپنے رسم و رواج کی سلامتی، صوبائی خود مختاری قدرتی وسائل سے جائز حصہ چاہتاہے اور کراچی کی طرز پر ایسا صوبہ نہیں چاہتے جہاں مالی و صنعتی تربیت یافتہ نئی نسل کی آبادکاریاں ترقی کے نام پر انہیں اقلیت بنا کر ان کی شناخت کو نگل جائے -دوسرا سوال کہ وہاں اقلیتوں کی حالتِ زار کیا ہے؟ بدقسمتی سے کوئٹہ کے بازاروں میں جہاں سینکڑوں ہزارہ، پنجابیوں اور ہندوئوں کی دُکانیں تھیں گزشتہ چند برسوں میں شرپسندوں کی دھمکیوں کے باعث ان میں سے اکثر ختم ہو چکی ہیں۔ پنجابی لاہور اور اسلام آباد کا رخ کرچکے ہیں- ہزارہ کراچی اور آسٹریلیا جا رہے ہیں۔
تیسرا سوال بیرونی مداخلت کے چرچوں سے متعلق ہوا ! بلوچستان ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جہاں کبھی امریکہ نے پاکستان کے طالبان کی مدد کی تو کبھی ایران کو سبق سکھانے کیلئے عراق ،اسرائیل کیساتھ مل کر بلوچوں کی- کبھی بھارت نے بنگالی مکتی باہنی کی طرز پر مذہبی اور غیر مذہبی تنظیموں کی اعانت کے ذریعے پاکستان کے ٹکڑے کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بلوچستان کے عوام ان سب کیلئے لوہے کے چنے ثابت ہوئے اور آج بھی وہ پاکستان میں مطمئن ہیں۔چوتھا سوال کہ بیوروکریسی رعایا کی آنکھ کا تارا کیوں نہ بن سکی؟ اول وفاقی بیوروکریسی بلوچستان آنا ہی پسند نہیں کرتی اور دوئم خادم نہیں بلکہ حاکم بن کر آتی ہے- اسکے روابط رعایا سے نہیں بلکہ سردار سے ہوتے ہیں وہ اپنی تربیت اور ماحول کی نسبت سے عام آدمی کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتی جبکہ بلوچی سردار اپنے قبیلے کے عام فرد کی سنتا ہے۔ وہ قبائلی رسم و رواج کا پابند ہوتا ہے جبکہ بیوروکریسی کا رویہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔ اس لئے بلوچ اپنے آپ کو سردار کے حوالے کرتے تسکین محسوس کرتے ہیں تاہم ایسے سول اور فوجی افسران بھی گزرے ہیں جنہوں نے عوام سے اتنی محبت کی کہ انکی واپسی پر رعایا روتی نظر آئی- میرے ایک محبوب بیچمیٹ ڈی آئی جی فیاض سنبل نے پنجاب چھوڑ کوئٹہ تعیناتی پر جامِ شہادت نوش کیاجبکہ گزشتہ کور کمانڈر ناصر جنجوعہ کیلئے رعایا آنسو بہاتی نظرآئی-
پانچواںسوال ماضی میں عسکری قوتوں کی منفی یا مثبت حکمتِ عملیوں سے متعلق ہوا - استحکامِ پاکستان کیلئے اچھے بُرے اقدامات نے ریاست پاکستان کے خلاف منفی جذبات پیداکئے، لیکن آج کے آپریشن کو مواصلاتی، تعلیمی، نظامِ صحت کی ترقی، بجلی اور گیس کی فراہمی کا زینہ تصور کرتے ہیں- اور اہم ترین سوال کہ بلوچستان میں کون ترقی نہیں چاہتا ہے؟ سیاست ہر جگہ ایک گلشن کے کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے- ہر ایم این اے اور ایم پی اے پرکشش مالیاتی فنڈز سے لدا ہوا ہے لیکن کرپشن اور ذاتی مفاد عوامی مفاد پر حاوی ہو جاتا ہے- وفاقی حکومتیں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ترقیاتی فنڈز مہیاء کرتی ہیں لیکن رعایا کی کٹیا بنانے اور سنوارنے کی بجائے سیاست دانوں کے محلات پروان چڑھ آتے ہیں- متذکرہ کتاب کی رونمائی بلوچستان پر ایک فکری تقریب میں تبدیل ہوگئی- اس لئے کہتے ہیں کہ تال سے گہری ندیا، ندیا سے ساگر، ساگر سے گہرا پیار میرا… دیکھو توڑ نہ دینا-
ساگر سے گہرا پیار میرا
Dec 13, 2015