فاٹا اصلاحات بل ایوان کے ایجنڈے سے نکالنے پر حکومت کیخلاف اپوزیشن اورفاٹا کے ارکان کی شدید ہنگامہ آرائی
قومی اسمبلی میں گزشتہ روز فاٹا اصلاحات بل کو پہلے ایوان کے ایجنڈے میں شامل کرنے اور پھر اسے نکالنے کے معاملہ میں اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی۔ فاٹا ارکان‘ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور نعرہ بازی کی جبکہ تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر روسٹرم کے سامنے جا کر دھرنا بھی دیا اور ایوان میں ’’بل کو کیوں نکالا‘‘ اور ایف سی آر مردہ باد کے نعرے لگائے‘ ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ کر فضا میں اچھالیں۔ اپوزیشن کے تمام ارکان بعدازاں نعرہ بازی کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اعلان کیا کہ فاٹا اصلاحات بل کو ایوان کے ایجنڈے سے نکالنے کے معاملہ میں بدنیتی نظر آتی ہے۔ آج ہم واک آئوٹ کررہے ہیں تاہم یہ واک آئوٹ بل کے ایجنڈے میں شامل کئے جانے تک جاری رہے گا۔ اس موقع پر حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ بل پر ابھی مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ دو تین دن بعد یہ بل دوبارہ ایوان میں لایا جائیگا۔
وقفہ سوالات کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو فاٹا سے حکمران مسلم لیگ (ن) کے رکن شہاب الدین کھڑے ہوگئے اور مائیک کے بغیر بولنا شروع کردیا اور کہا کہ وہ ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دینگے۔ حاجی شاہ گل آفریدی نے بھی انکی حمایت کی اور کہا کہ ہم پاکستانی ہیں‘ ہمیں غدار نہ بنائو۔ اس موقع پر فاٹا کے دیگر ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور تحریک انصاف کے ارکان نے بھی انکے احتجاج کا ساتھ دیا جبکہ شہاب الدین نے اپنی نشست پر کھڑے کھڑے ایوان کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ حاجی گل آفریدی نے کہا کہ ہمیں تھانیداری قبول نہیں‘ ہم پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے استفسار کیا کہ جب فاٹا اصلاحات بل ایجنڈے میں شامل تھا تو اسے ایجنڈے سے نکالنے کی کیا وجہ ہے‘ اس سے ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ بل پیش نہ ہونے پر فاٹا کے ارکان نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر شدید احتجاج کیا اور مولانا فضل الرحمان‘ محمود خان اچکزئی اور وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ مردہ باد کے نعرے لگائے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق فاٹا اصلاحات بل حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے دبائو پر اجلاس کے ایجنڈے سے نکالا گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فاٹا اصلاحات بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو 15 دسمبر کو ناشتہ پر مدعو کرلیا ہے۔
فاٹا کے صوبہ خیبر پی کے میں انضمام کیلئے فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی بشمول حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے رواں سال کے آغاز ہی میں ایوان میں آواز اٹھانا شروع کردی تھی جو سیاست اور انتظامی معاملات کے قومی دھارے میں شامل ہونے اور اپنے قبائلی ہونے کی گمنام شناخت کے ازالے کیلئے فاٹا کا کے پی کے میں انضمام چاہتے ہیں تاکہ انہیں کے پی کے اسمبلی میں بھی معقول نمائندگی مل سکے۔ فاٹا سے منسلک علاقوں کا یہ المیہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل یہ افغانستان کا حصہ تھے جبکہ قیام پاکستان کے بعد ان علاقوں کو باضابطہ طور پر صوبہ سرحد کا حصہ بنانے کے بجائے انہیں انگریز کے لاگو کردہ فیڈرلی کنٹرولڈ ریگولیشن (ایف سی آر) کے ماتحت کردیا گیا۔ اس طرح ان علاقوں میں ایک طرح سے جنگل کے قانون کی حکمرانی مسلط کردی گئی جس کے تحت جرگہ سسٹم اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعہ ان علاقوں کا انتظام چلایا جانے لگا جبکہ اس نظام میں متذکرہ علاقوں کے باشندے قومی اور صوبائی وسائل سے استفادہ کرنے سے محروم ہوگئے اور سرحد اسمبلی میں انہیں اس لئے نمائندگی نہ مل سکی کہ یہ علاقے وفاق کے زیرانتظام ہیں۔ اسی بنیاد پر قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں مخصوص ہوئیں جو فاٹا کے عوام کی حقیقی نمائندگی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس تناظر میں فاٹا کے عوام قیام پاکستان کے وقت سے ہی محرومیوں کا شکار ہیں جنہیں وفاق اور صوبوں کی ملازمتوں میں بھی حصہ نہیں ملتا اور صوبہ سرحد (کے پی کے) میں شامل نہ ہونے کے باعث یہ علاقے اس صوبے کے زیرانتظام ہونیوالے ترقیاتی کاموں سے بھی محروم ہیں۔
اسی پس منظر میں فاٹا کے ارکان اسمبلی نے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے تحریک کا آغاز اور اس کیلئے وفاقی حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کیا جبکہ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ اے این پی اور علاقے کی دوسری نمائندہ تنظیموں نے فاٹا ارکان کے اس کاز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس بڑھتے ہوئے دبائو کے پیش نظر حکومت نے راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں اصلاحات کمیٹی تشکیل دی جس نے مفصل غوروفکر اور تمام پارلیمانی جماعتوں کی رائے حاصل کرکے فاٹا اصلاحات بل کا مسودہ تیار کیا جس کی وفاقی کابینہ نے 21 مارچ کو منظوری دے دی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے ذریعے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے حکمران مسلم لیگ (ن) کے آمادہ ہونے کے بعد حکومتی حلیف دو جماعتوں جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے قائدین مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے کے پی کے میں فاٹا کے انضمام کی مخالفت کا بیڑہ اٹھالیا جبکہ ان دونوں جماعتوں کو کے پی کے میں نمائندگی حاصل ہے۔ انہوں نے محض اپنی انفرادی مفاداتی سیاست کے تحت یہ شوشہ چھوڑا کہ فاٹا کے عوام کے پی کے میں انضمام کے بجائے اپنے الگ صوبے کی تشکیل چاہتے ہیں جبکہ فی الحقیقت فاٹا کے عوام کی غالب اکثریت خود کو کے پی کے میں شامل کرنے کی خواہش مند ہے جس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انکے نمائندہ ارکان اسمبلی اور وہاں نمائندگی رکھنے والی دوسری سیاسی جماعتوں تحریک انصاف‘ اے این پی‘ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے بیک آواز فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے آواز اٹھائی گئی۔ اس تناظر میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی محض اپنی تھانیداری قائم کرنے کی خاطر فاٹا کا الگ صوبہ بنانے کی وکالت کررہے ہیں تاکہ وہاں کی مجوزہ اسمبلی اور حکومت میں وہ اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ اس میں قومی یکجہتی والی سیاست کا قطعاً عمل دخل نہیں جبکہ محمود خان اچکزئی تو مفاد پرستی کی سیاست میں قومی اسمبلی کے فلور پر اعلانیہ افغانستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھی اظہار کرچکے ہیں اور کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز بھی پیش کرچکے ہیں جو درحقیقت بھارت کا ایجنڈا اور مطمح ٔ نظر ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام کا پس منظر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کے قائدین قیام پاکستان کی اعلانیہ مخالفت کرتے رہے جبکہ قیام پاکستان کے بعد مولانا فضل الرحمان کے والد محترم مفتی محمود نے اعلانیہ اس امر پر اظہار تشکر کیا تھا کہ وہ پاکستان کے قیام کے ’’گناہ‘‘ میں شریک نہیں ہوئے۔ اپنے اس ماضی کی بنیاد پر ہی یہ دونوں حکومتی حلیف پاکستان کی جڑیں مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔
بدقسمتی سے اس ارض وطن کے ساتھ کچھ ایسی جونکیں چمٹی ہوئی ہیں جو یہاں کا کھاتے ہیں اور یہاں سے اپنے اور اپنے خاندانوں کیلئے تمام فائدے سمیٹنے اور اقتدار میں شیرینیاں وصول کرنے کے باوجود پاکستان کیلئے بدخواہی کا سوچتے ہیں اور اسکی سالمیت کے حوالے سے گاہے بگاہے زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی سوچ کے ڈانڈے درحقیقت پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے بھارت کی سازشوں کے ساتھ ملتے ہیں اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکمران جماعتیں بھی محض اپنے اقتدار کے تحفظ اور استحکام کی خاطر ایسے عناصرکے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں اور قومی و ملکی مفادات کے منافی انکے رویوں اور طرز عمل کو برداشت کرکے انہیں شریک اقتدار کئے رکھتی ہیں۔ اسی تناظر میں حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کی مخالفت پر اترے ہیں کیونکہ اس سے انہیں وفاق کی اسکی اکائیوں کے ساتھ بنیادیں مضبوط ہوتی محسوس ہوئی ہیں۔ محمود خان اچکزئی تو آج بھی خیبر پی کے کے سرحدی علاقوں کے افغانستان کا حصہ ہونے کے داعی ہیں اور خدانخواستہ پاکستان پر کوئی افتاد ٹوٹنے کی صورت میں اپنے آبائی وطن افغانستان واپس جانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ کیا پاکستان کی خالق جماعت کی جانشین ہونے کی داعی مسلم لیگ (ن) کے قائدین پاکستان کی بنیادیں کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے مفاد پرست سیاست دانوں کے کاز کو توانا بنانے کیلئے انہیں اپنے ساتھ شریک اقتدار کئے ہوئے ہیں جبکہ وہ اسی تھالی میں چھید کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جس میں سے وہ پیٹ بھر کر کھارہے ہیں۔
جب مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی نے فاٹا اصلاحات بل کی منظوری دی اور اسکے تحت فاٹا کے خیبر پی کے میں مرحلہ وار انضمام کا فیصلہ ہوگیا تو حکومت کیلئے اس فیصلہ پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہیے تھی۔ پھر بھی حکومت مفاد پرست سیاست دانوں کے دبائو میں آگئی اور انہیں فاٹا اصلاحات کا طے شدہ معاملہ دوبارہ کھلونے کا موقع فراہم کردیا۔ اس وقت جبکہ حکمران مسلم لیگ (ن) پہلے ہی دوسرے مختلف ایشو پر سخت دبائو میں ہے‘ اسے فاٹا اصلاحات ترمیمی بل ایوان میں پیش نہ کرنے کا راستہ اختیار کرکے اپنی پارٹی کے اندر مزید کمزوریوں کو داخل نہیں ہونے دینا چاہیے جبکہ یہ محض سیاست کا نہیں‘ ملک و قوم کے مفاد کا معاملہ ہے۔ اگر حکومت کے دو حلیفوں کے سوا تمام قومی سیاسی جماعتیں فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کے حق میں ہیں تو حکومت کو اسے عملی جامہ پہنانے میں پس و پیش سے ہرگز کام نہیں لیناچاہیے۔ اسے وسیع تر قومی مفاد کا سوچنا اور محض دو حلیف جماعتوں کے مفاد کی خاطر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہیے۔
اس وقت فاٹا اصلاحات بل کے ایشو پر ساری اپوزیشن متحد ہورہی ہے اور حکومت کی اپنی صفوں میں بھی دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں جس کے ارکان فاٹا کھل کر اس کیخلاف اپوزیشن کے ساتھ صف بندی کررہے ہیں تو حکمران مسلم لیگ (ن) کو بیٹھے بٹھائے ایک نئی مصیبت مول نہیں لینی چاہیے۔ اس کیلئے مناسب یہی ہے کہ فاٹا اصلاحات بل کو دوبارہ قومی اسمبلی کے رواں اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرکے ہائوس میں پیش کردیا جائے بصورت دیگر اسے اپنے خلاف ایک نئی تحریک کیلئے تیار رہنا چاہیے۔