حمجید نظامی مرحوم صحافت میں میرے آئیڈیل تھے۔ میں نے ہمیشہ انہیں اپنے والد کی جگہ قرار دیا۔ ان کے ادارے میں دو مرتبہ کام بھی کیا لیکن ’’نوائے وقت‘‘ سے منسلک ہونے سے بہت پہلے سے میں انہیں جانتا تھا۔ اکثر ملنے جاتا تھا۔ یہ میری طالب علمی اور نوجوانی کے دن تھے اور مجید نظامی غالباً 35‘ 40 برس کے خوش پوش دھیمی طبع کے مگر اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی طرح اصولوں پر ڈٹ جانے والے انسان تھے۔
میں اردو ڈائجسٹ سے منسلک تھا تو بھی بے شمار مرتبہ ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اپنا سیاسی ہفت روزہ نکالا تو ایڈیٹر پبلشر کے طور پر اے پی این ایس اور سی پی این ای کے رکن ہونے کی حیثیت سے فوجی آمروں سے لے کر سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھٹو سے ایڈیٹروں کی ملاقاتوں میں بھی نظامی صاحب کو سینئر ترین ایڈیٹر کے طور پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مجید نظامی خاموش طبع اور کم بولنے والے انسان تھے مگر ان کی مختصر گفتگو میں بھی اتنی کاٹ ہوتی تھی کہ اکثر سننے والا جملے کے ایک ایک لفظ سے جھلس جاتا تھا۔
یوں تو اردو ڈائجسٹ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور اپنے سیاسی ہفت روزہ صحافت کے ایڈیٹر کے طور پر بے شمار مرتبہ نظامی صاحب سے ملاقاتیں رہیں پھر یوں ہوا کہ ضیاء الحق صاحب نے نوے دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ توڑ کر یہ کہا کہ جس طرف دیکھتا ہوں گند ہی گند ہے‘ پہلے مجھے اس گند کو صاف کرنا ہے۔ بہرحال الیکشن کی تاریخ دے کر انہوں نے اسے تبدیل کر دیا اور سخت ترین سنسرشپ کا دور شروع ہوا۔ میں ان باتوں سے اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ میرا اخبار جو ہر ہفتے 63 ہزار چھپتا تھا اور بڑے بڑے روزناموں سے اس کی سرکولیشن زیادہ تھی‘ میں نے ’’جناب ضیاء الحق آپ کا شکریہ…‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھ کر آخری شمارہ چھاپا جس میں اسے بند کرنے کا اعلان بھی شامل تھا۔ ان دنوںاور روزنامہ نوائے وقت کے سوا کوئی آزاد اخبار مارکیٹ میں نہ تھا میں نے طے کیا کہ نوائے وقت میں ملازمت کر لوں تاکہ صحافت کے میدان میں ان بھی رہوں اور مارشل لا کی وجہ سے مشکل وقت بھی نکالا جا سکے۔
چنانچہ روزنامہ نوائے وقت کے دفتر میں جناب مجید نظامی سے ملا اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے میری خواہش کے مطابق میگزین ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپ دی۔ انکے یہ الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ انہوں نے کہا ضیا صاحب آپ نے اخبار بند کئے‘ مقدمے درج کروائے اور جیلوں میں وقت گزارا‘ میں نے کبھی جیل نہیں کاٹی اور نہ جیل جانا پسند کرتا ہوں‘ قائداعظم نے بھی کبھی جیل نہیں کاٹی تھی۔ آئین اور قانون کے اندر رہ کر جس حد تک ہو سکے اپنی لڑائی لڑتا ہوں لہٰذا کان کھول کر سن لیں کہ اخبار بند کروانے سے بہتر ہے کہ جس حد تک سچ لکھا جا سکتا ہے لکھو‘ آپ نے یہاں کام کرنا ہے تو کوئی ایڈونچر نہ کرنا۔ میں نے کہا جناب آپکو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ میں ڈسپلن کا پابند ہوں۔ آپ جو پالیسی دینگے اس پر سو فیصد عمل کروں گا۔ اسکے بعد میں پھر ڈپٹی ایڈیٹر بنا۔
زندگی بھر میں نے مجید نظامی صاحب کی تعریف میں قصیدے کہے ہیں۔ وہ عظیم انسان تھے‘ شفیق استاد تھے‘ بہت بڑے محب وطن تھے۔ انتہائی اعلیٰ پائے کے قلم کار تھے‘ اداریہ نویس تھے‘ مختلف کالم نگاروں کی تحریریں پڑھتے وقت وہ اتنے زبردست اضافے کرتے اور ایسے کاٹ دار جملے شامل کرتے کہ میں زندگی بھر کوئی بھی کالم پڑھ کر نشان لگا سکتا تھا کہ یہ جملہ مجید نظامی صاحب کا ہے جو انہوں نے اضافے کے طور پر شامل کیا ہے۔ وہ دو قومی نظریئے کے بہت بڑے مبلغ تھے۔ وہ پاکستان کی سربلندی اور اسکی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تقدس کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ وہ ایڈیٹر اور کامیاب منیجنگ ایڈیٹر تھے جنہوں نے حمید نظامی دور کے نوائے وقت کو جب تنخواہیں بھی قسطوں میں ملا کرتی تھیں ایک مضبوط معیشت دی۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں نئے دفاتر تعمیر کروائے‘ اخبار کو بہترین مشینری فراہم کی۔ انگریزی کا اخبار نیشن نکالا‘ ہفت روزہ ندائے ملت شروع کیا۔ بچوں کا ماہنامہ پھول نکالا۔ اخبار جہاں کے سٹائل کا فیملی میگزین ویکلی روشناس کروایا۔ وہ کئی مرتبہ اے پی این ایس‘ یعنی آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور سی پی این ای کے صدر رہے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ بنایا۔ انہوں نے وقت ٹی وی کا آغاز کیا۔ انکے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جائینگے۔ ہر حاکم وقت کو انہوں نے للکارا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے والد میاں شریف سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ نواز شریف اور شہباز شریف انہیں ہمیشہ بزرگ کہتے رہے۔ وہ خود ان سے ملنے ہمیشہ انکے گھر جاتے تھے۔ لیکن اتنے قریبی تعلقات کے باوجود جب کبھی مسلم لیگ (ن) کی بات ہوتی تھی تو نظامی صاحب ہمیشہ کہتے اس مسلم لیگ کا قائداعظم کی مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔ نواز‘ شہباز صاحبان کی حکومت سے کوئی نظریاتی غلطی ہوتی تو نظامی صاحب تڑپ اٹھتے تھے۔ واجپائی لاہور آئے تو نواز شریف صاحب نے جس شاندار طریقے سے ان کا استقبال کیا اس پر جماعت اسلامی نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مظاہرین کی ڈنڈوں سے پٹائی کی اور انہیں زبردستی اٹھا اٹھا کر پولیس نے اپنی گاڑیوں میں ڈالا۔ نظامی صاحب جلسے جلوسوں کے آدمی نہیں تھے مگر انہوں نے ڈٹ کر بھارتی وزیراعظم کے استقبال پر حکومت کی سخت سرزنش کی۔
نواز شریف صاحب نے نجم سیٹھی‘ امتیاز عالم‘ عاصمہ جہانگیر اور دیگر سیفما اینڈ کمپنی کے دانشوروں کی موجودگی میں جب یہ کہا کہ سرحد کے دونوں طرف ایک جیسے لوگ رہتے ہیں‘ انکی خوراک‘ زبان‘ لباس ایک ہے‘ سوچ ایک ہے‘ دونوں طرف کے لوگ ایک ہی رب کی پوجا کرتے ہیں تو نوائے وقت کی روح کانپ اٹھی اور حمید نظامی کا لگایا ہوا یہ پودا خاموش نہ رہ سکا۔ انہوں نے نواز شریف کی گفتگو کا سختی سے نوٹس لیا اور اسے دو قومی نظریئے کے منافی قرار دیا۔ نواز شریف تو کیا ساری دنیا مل کر بھی دو قومی نظریئے کا مذاق اڑاتی تو بھی نظامی صاحب انکے راستے میں ڈٹ جاتے۔
میں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں اس کا آغاز گورنر ہاؤس کراچی سے ہوتا ہے۔ سندھ میں جنرل عباسی صاحب گورنر تھے ضیاء الحق کا دور تھا راجہ ظفرالحق وفاقی وزیر اطلاعات تھے اور جنرل مجیب الرحمن جو فوج کے حاضر سروس جرنیل تھے سیکرٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ ایک روز کراچی کی سیاست میں ایک دھماکہ ہوا جب گورنر سندھ کی اہلیہ یاسمین عباسی نے جو ذاتی طور پر بینظیر بھٹو کی پرستار تھیں نے اپنی لیڈر کی رہائی کیلئے گورنر ہاؤس سے خواتین کا ایک جلوس نکالا‘ میرے پاس تصویریں بھی آئیں اور خبر بھی تو میں حیران رہ گیا‘ ’’بینظیر کو رہا کرو‘‘ کے کتبے عورتوں کے ہاتھ میں تھے اور یاسمین عباسی اپنی ہی حکومت اور اپنے ہی صدر ضیاء الحق کیخلاف نعرے لگاتے ہوئے باہر آ رہی تھیں اور تصویروں میں بیرونی دروازے پر لگا ہوا خصوصی سائن بورڈ نظر آ رہا تھا جس پر گورنر ہاؤس لکھا ہوا تھا‘ بعدازاں ڈائریکٹر انفارمیشن کے دفتر سے فون موصول ہوا کہ یہ تصویر "Kill" کر دی جائے یعنی ہرگز نہ چھاپی جائے۔ ظاہر ہے گورنر عباسی اور پوری صوبائی حکومت کیلئے یہ بڑادھچکا ہو گا کہ انکے اپنے گورنر کی بیوی بینظیر کیلئے جلوس نکال رہی ہے اور وہ بھی گورنر ہاؤس کراچی سے برآمد ہوا۔ میں نے اس صورتحال میں اپنے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی صاحب سے رہنمائی لینا ضروری سمجھی کیونکہ سندھ حکومت کے چیف سیکرٹری کا بھی مجھے فون آیا کہ سب اخباروں کو منع کر دیا گیا ہے اور آپ بھی خیال رکھیں۔
میں نے فون پر جناب مجید نظامی صاحب سے بات کی وہ دفتر سے گھر جا چکے تھے۔ میری بات سن کر ہنسے اور بولے جنرل ضیاء نے اچھا گورنر بنایا ہے وہ صوبے کو کیا کنٹرول کریگا جب وہ اپنی بیوی کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ میں نے پوچھا جناب میرے لئے کیا حکم ہے؟ کیا ہم خبر اور تصویر روک لیں یا چھاپیں۔ یہ شام کے آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے تھے‘ نظامی صاحب نے کہا کہ چھاپنی چاہئے ہم کیوں روکیں‘ میں نے کہا ٹھیک ہے جناب‘ ٹیلی فون پر ٹیلی فون آتے رہے مگر میں نے جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ خبربنوا کر اور تصویروں کے پازیٹو بنوا کر خود فرنٹ پیج پر اس کے لئے جگہ تجویز کی۔ نو بجے کے قریب سیکرٹری اطلاعات جو معروف ٹی وی میزبان انور مقصود اور فاطمہ ثریا بجیا کے بھائی تھے کا فون آیا ضیا صاحب بڑا افسوس ہے، مجھے آپ کے دفتر سے خبر ملی ہے کہ آپ صفحہ اول پر گورنر ہائوس والی تصویر اور خبر چھاپ رہے ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ چیف ایڈیٹر کو صورتحال سے آگاہ کیا تھا انہوں نے جو حکم دیا میں اسی پر عمل کر رہا ہوں، آدھ گھنٹے کے بعد سندھ کے وزیر اطلاعات احد یوسف، سیکرٹری اطلاعات جن کا نام غالباً کچھ حمیدی تھا ‘ دفتر آگئے محکمہ اطلاعات کے کچھ افسران انکے ہمراہ تھے۔ سیکرٹری صاحب کا رویہ تو بہت ہی جارحانہ تھا جس پر مجھے کہنا پڑا کہ جناب آپ مجھے اس طرح دھمکا نہیں سکتے میں محترم مجید نظامی صاحب کی ماتحتی میں کام کرتا ہوں آپ کی ماتحتی میں نہیں۔ انہوں نے پیار و محبت سے بات کی اور درخواست کرتے رہے ہم سب خود حاضر ہوئے ہیں، اس خبر اور تصویر کے چھپنے سے سندھ حکومت کیلئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ ہے میں نے کہا جناب میں چیف ایگزیکٹو سے رابطہ کرتا ہوں اگر انہوں نے اجازت دی تو یقیناً تصویر اور خبر روک لوں گا اگر انہوں نے سابقہ فیصلہ برقرار رکھا تو خبر اور تصویر ہر قیمت پر شائع ہو گی۔ (جاری)
نوٹ
مندرجہ بالا مضمون جناب ضیاء شاہد کی یادداشتوں پر مشتمل تازہ ترین کتاب ’’قلم چہرے‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ان معروف لوگوں سے ملاقاتوں اور ان سے وابستہ یادوں کا تفصیلی ذکر ہے جو انکی زندگی میں سامنے آئے۔ پاکستانی صحافت اور ادب کیلئے یہ ایک بہترین کاوش ہے۔ قیام پاکستان کے بعدکی تاریخ اس کتاب کے مطالعہ سے زندہ جاوید آپکے سامنے نظر آتی ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل اور فوٹو آف سیٹ کاغذ پر یہ کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی ہے ۔