اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا ہے اور نہ نیب نے‘ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہو سکتا ہے بطور ثبوت نہیں‘ بیانات چھوڑیں شواہد پیش کریں۔ جے آئی ٹی نے صرف اپنی رائے دی تھی‘ مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں‘ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں‘ حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے‘ پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 189 کی شق 3کے تحت سنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق نیب کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ پر جے آئی ٹی کی سفارشات پڑھ کر سنائیں۔ عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ ریفرنس میں تاخیر سے متعلق مطمئن کریں۔ کیس کی باقی تفصیلات دوسرے فریق کو نوٹس کے بغیر سنیں گے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے۔ پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ پانامہ فیصلے کے بعد نیب اجلاس میں اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔ جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پانامہ فیصلے میں ہدایات تھیں۔ عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پانامہ فیصلے میں نہیں ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے۔ جے آئی ٹی سفارشات پر کیا عدالت نے حدیبیہ کے بارے میں ہدایت کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رائے دی، مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں، ممکن ہے یہ معاملہ انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے وکیل کو ہدایت کی کہ بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بادی النظر کا لفظ نہیں بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں۔ نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت لگ جائے گا۔ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ کا اکائونٹ کون چلا رہا ہے؟ اکائونٹ اب آپریٹ نہیں ہورہا تو ماضی میں کرنے والے کا نام بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب نے اب تک کیا تحقیقات کیں بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا، بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ہیں۔ تحریری ثبوت دیں کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس پر سوال کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ ہم نے سوال نامہ بھیجا پر ابھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2013ء میں کہا تھا کہ نیب مذاق بنا رہی ہے 2017ء میں اب پھر ہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے، یاد رکھیں پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا۔ وکیل نیب نے استدعا کی اسحاق ڈار کا بیان پڑھنا چاہتا ہوں، اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کیا اہم ثبوت لائے ہیں کہ ریفرنس دوبارہ کھولنے کا حکم دیں، پیسے اِدھر چلے گئے اُدھر چلے گئے یہ کہانیاں ہیں، الزام بتائیں۔ وکیل نیب نے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن اکائونٹس منجمد کردیئے گئے تھے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992ء سے 2017ء آگیا، الزامات واضح ہونے چاہئیں۔ صدیقہ کے اکائونٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ عمران الحق نے بتایا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈار نے رقم نکلوانے کا اعتراف کیا جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب نے کچھ کیا ہے۔ بہت سارے قانونی لوازمات بھی نیب کو پورے کرنے تھے۔ کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرز کو تمام سوالات دئیے گئے؟ عمران الحق نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کو سوالنامہ بھیجا مگر جواب نہیں دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 13 کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہے ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب کی باتیں مان لیں تو پھر بھی مجرمانہ عمل بتانا ہوگا۔ نیب سیکشن 9اے کے تحت تو کوئی بات نہیں کررہے۔ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بتائیں کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کیلئے کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ اسحاق ڈار کو شریف فیملی کے لئے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کائونٹر چیک کیا گیا۔ عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے شریف خاندان نے ستمبر 1991ء میں منی لانڈرنگ کا آغاز کیا۔ ابتدائی طور پر سعید احمد اور مختار حسین کے اکائونٹ کھولے گئے، اسحاق ڈار کا 164 کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ کیسے منی لانڈرنگ کی گئی۔ اسحاق ڈار نے جعلی اکائونٹس کو اپنے بیان میں تسلیم کیا۔ عمران الحق نے کہا جے آئی ٹی نے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کی سفارش کی، منی ٹریل حدیبیہ پیپر ملز سے جڑی ہے، اسی لئے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا کہا گیا۔ مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تمام فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کر کے ملزمان نے اپنا پیسہ نکلوا لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اسحاق ڈار کے بیان کو کس قانون کے تحت دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کیا اسحاق ڈار کے بیان کی تصدیق کی گئی؟۔ عدالت نے کہا منی ٹریل سے متعلق شواہد پر دلائل دیں۔ جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا حدیبیہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانامہ مقدمے کے فیصلے میں ہدایات تھیں اور کیا جے آئی ٹی سفارشات پر عدالت نے حدیبیہ کیس سے متعلق کوئی ہدایات دیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا ہمیں کوئی جلدی نہیں‘ تاخیر سے ریفرنس دائر کرنا عبور کرلیا تو ممکن ہے کہ بات میرٹ پر آ جائے‘ قانون سب کیلئے ایک ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ بادی النظر میں یہ کیس بنتا ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں، سیدھا مؤقف اپنائیں۔ کیا نیب کو مزید تحقیقات کیلئے 50 سال کا وقت لگ جائیگا۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو منی ٹریل کی شناخت کرنا ہوگی۔ حدیبیہ پیپر ملز کے بینیفشریز کون ہیں یہ بھی بتانا ہوگا۔ جسٹس فائز نے کہا کہ یہ بھی کافی نہیں ہے، اس میں بھی جرم کا عنصر کیا ہے؟ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا نیب کے سیکشن 9اے کے تحت یہ جرم ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہمارے قوانین کے مطابق ملزم کی ذمہ داری ہے وہ بے گناہی ثابت کرے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیانات میں موجود حقائق کی تحقیق کی گئی۔ جسٹس فائز نے کہا کہ منی ٹریل کے جے آئی ٹی سے پہلے اور بعد کے شواہد پر دلائل دیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، تاخیر سے ریفرنس دائر کرنا عبور کرلیا تو ممکن ہے کہ بات میرٹ پر آجائے۔ کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ