اگر اعتراضات کے تیر برسائے گئے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ جو لوگ ملک کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کریں‘ ملک دشمن قوتوں سے خفیہ رابطے رکھیں اور ان کے پاکستان دشمن عزائم کی تکمیل کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کریں‘ انہیں کھلے عام جلسے کرنے‘ ریلیاں نکالنے اور ان میں پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی کرنے کی اجازت دیدی جائے تو یہ رویہ بلاشبہ سوالیہ نشان ہی بنے گا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے جو تنظیم سامنے آئی ہے‘ نام سے یہ پشتونوں کے حقوق یا ان کی جان و مال کے تحفظ کیلئے قائم کی گئی لگتی ہے‘ لیکن یہ تو کوئی بدعقل بھی سمجھ سکتا ہے کہ فوج یا فوج کے سربراہ کے خلاف نعرہ بازی سے پشتونوں کا تحفظ ہوگا یا پاکستان دشمن عناصر کو تقویت ملے گی۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے منظور پشتین نے 2014ء میں ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ نسلی بنیاد پر بننے والی اس تنظیم سے پہلے محسود قبائل کے نوجوانوں کو گھیرنے کی کوشش کی۔ پھر کراچی میں نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کے بعد اس تنظیم نے اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا پھر نام بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ بنا دیا گیا۔ اس کے پلیٹ فارم سے فوج کے خلاف نعرہ بازی اور ملک دشمن سرگرمیوں پر ملک بھر میں اس کے خلاف کارروائی کی سوچ ابھری بلکہ کوئی کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھے پھر مزید تعجب خیز بات یہ ہوئی کہ تنظیم کے مطالبات پر بات چیت کیلئے حکومتی جرگہ تشکیل دیا گیا جس میں حکومت کی نمائندگی ملک جان مرجان اجمل کزیر اور شاہ فرمان نے کی جبکہ پی ٹی ایم کی جانب سے محسن داوڑ‘ علی وزیر اور دیگر شریک ہوئے۔ دوران مذاکرات ہی اس تنظیم نے عہد شکن اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ شروع کر دیا جس سے مذاکرات کاسلسلہ ٹوٹ گیا۔ ظاہر ہے پیچھے سے ڈوریاں ہلانے والوں کو نتیجہ خیز مذاکرات کب گوارہ تھے‘ تاہم ہر کوشش کی گئی کہ ان لوگوں کو قومی سیاسی دھارے میں لا کر ملک دشمنوں کا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھا جائے۔ اس سوچ کے تحت تنظیم کے سرخیل محسن دائوڑ اور علی وزیر کو فاٹا سے قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا گیا۔ 25 جولائی کے الیکشن سے پہلے عمران خان نے منظور پشتین کے مطالبات کو حقیقی قرار دیا اور پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا جنرل باجوہ سے ملاقات کرکے کہوں گا فاٹا میں بارودی سرنگیں تیزی سے صاف کی جائیں۔ چیک پوسٹوں کو ختم کیا جائے اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے مگر اس کے باوجود منظور پشتین‘ محسن داوڑ اور علی وزیر کی جانب سے پاک فوج کے خلاف زہریلا پراپیگنڈ بند نہیں کیا گیا اور چند روز قبل وانا میں جو ریلی نکالی گئی‘ اس میں قابل اعتراض نعروں کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اسی دوران بھارت کی ایجنسی را کی جانب سے پی ٹی ایم اور بلوچستان آپریشن آرمی میں الحاق کرانے کی سفازش سامنے آئی۔ بھارتی صوبے اتر پردیش کے شہر پونا میں قائم را کا خصوصی ڈیسک پی ٹی ایم اور بلوچوں بالخصوص پی ایل اے میں باقاعد الائنس بنانے کی مصنوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ بھی سراغ لگا ہے کہ پاکستان مخالف عناصر کی تمام سوشل میڈیا ٹیمیں یہ سب کنٹرول کر رہی ہیں۔ ان تمام تنظیموں کے الائنس کے ذریعہ لاپتہ افراد کے معاملے کو اچھال کر پاکستان اور پاکستانی فوج کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس منصوبہ کے حوالے سے منظور پشتین کراچی سے کوئٹہ گیا جہاں لاپتہ افراد کے نام سے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے‘ تاہم اسے کوئٹہ ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اس تنظیم کے وابستگان کو قومی سیاسی دھارے میں لا کر ملک و قوم بالخصوص پشتونوں کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ملک دشمنوں کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی۔ اس صورت میں میراخیال ہے اس کے خلاف مؤثر کارروائی ضروری ہے۔ دوسرے اس تنظیم کے بھارتی ایجنسی را کے ذریعہ را کے زیرکنٹرول … چند درجن بلوچوں سے رابطے بے نقاب ہونے کے بعدان کی طرف سے آنکھیں بند رکھنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
ادھر ہندو انتہاپسندی کی آگ بھڑکانے والی بی جے پی نے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے جنوں میں ہندوئوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں گہری خلیج حائل کر دی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ کسانوں پر ظلم‘ اقلیتی عوام کے خلاف اقدامات‘ نوٹ بندی‘ دفاعی سودوں میں رشوت اور گائے کے گوشت پر پابندی جیسے کاموں نے پہلے حکمران بی جے پی سے لوگوں کو ناراض کر رکھا تھا‘ پانچ ریاستوں(صوبوں) میں انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کو سخت جھٹکا لگا ہے۔ بی جے پی کسی ایک ریاست میں نہیں جیت سکی جبکہ کانگریس تین ریاستوں مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں جبکہ (تلنگانہ میں ٹی آر ایس / تلنگانہ راشٹریا سمیٹی اور میزورام میں ایم این ایف میزوارام نیشنل فرنٹ) حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہیں۔ اب بی جے پی کے پاس رام مندر کو ترپ کے پتے کے طورپر استعمال کرکے ہندو انتہاپسندی کی آگ مزید بھڑکاکر الیکشن جیتے کا واحد آپشن رہ گیا ہے۔ بلاشبہ مودی آج بھی ہندوئوں کیلئے پرکشش شخصیت ہے‘ لیکن راہول گاندھی‘ ممتا بینرجی‘ لالو پرشاد کا اتحاد مودی کیلئے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ بالخصوص ریاستی الیکشن میں کامیابی نے کانگریس کے کارکنوں کا مورال بلند کر دیا ہے۔ انتہاپسند ہندو تنظیموں کی معاونت سے بی جے پی 2019ء کے الیکشن جیت بھی گئی تو بھی بہت کم اکثریت سے اور اسے بہت بڑی اور مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا جبکہ پانسا پلٹنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
منظور پشتین حربیار الائنس کیلئے سرگرم
Dec 13, 2018