اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے نازیبا الفاظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فواد چوہدری کے الفاظ حذف کردیئے، فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب کو ٹوکتے ہوئے اور ان کے خلاف نیب تحقیقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متوقع گرفتاری کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم عوام کے لوٹے ہوئے پیسے واپس نہ لے سکے تو پھر تحریک انصاف کو حکومت کا حق نہیں، انوکھے لاڈلے کھیلنے کو چاند مانگ رہے ہیں،کالج کے باہر بسیں روک کر ٹکٹ دینے والے کے پاس ہاﺅسنگ سوسائٹیاں کیسے بنیں، لگتا ہے ساری اپوزیشن کو اپنا خطرہ پڑا ہے، سب کو اپنے اپنے کرتوت یاد ہیں اس لیے گھبرائے ہوئے ہیں جبکہ وزیر مملکت مواصلات مراد سعید نے دعویٰ کیا ہے کہ ن لیگ کے 7رہنماﺅں نے ان سے این آر او مانگا۔ جس رہنما نے سب سے پہلے رابطہ کیا وہ آج بھی ایوان میں موجود ہے۔ کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ جس نے قوم کا ایک پیسہ بھی لوٹا، اس کے اثاثے ڈی چوک پر نیلام کیے جائیں اور انہیں یہیں پھانسی بھی دی جائے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ سعد رفیق کی گرفتاری ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت منسوخ ہونے پر ہوئی۔ عدالت نے انہیں مکمل سنا پھر ضمانت منسوخ کی۔ پچھلے دس سال میں جس طرح ملک کو چلایا گیا وہ سب کے سامنے ہے، ملک سے چوری کیا گیا پیسہ منی لانڈرنگ کرکے باہر بھیجا گیا اور منی لانڈرنگ میں ملوث لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے اور ہمارے ماتحت نہیں ہے، نیب کا موجودہ موجودہ سیٹ اپ اسی وقت کا ہے جب یہ اقتدار میں تھے، چیئرمین نیب کا تقرر کرنے والے بھی شاہد خاقان عباسی ہیں جب تک معاملہ دوسروں کے لیے چل رہا تھا تو وہ درست تھا، اب جب وہ اقتدار سے باہر نکلے اور ہاتھ ان پر پڑا تو قانون میں خامیاں یاد آگئی ہیں۔ انہوں نے کہا ن لیگ کی تربیت میں مسئلہ ہے دوسروں کی بات نہیں سنتے، رونا دھونا ہی کرنا ہے یا جواب بھی سننا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ سائیکل چلانے والے سے پوچھیں پیسہ کہاں سے آیا تو جمہوریت کو خطرہ ہوجاتا ہے۔ خزانہ کیسے خرچ ہوا ہے آپ کو حساب دینا ہوگا اور دینا بھی چاہیے، اگر ہم ان سے عوام کے پیسے واپس نہ لے سکے تو پھر تحریک انصاف کو حکومت کا حق نہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کی خواہشات کی ترجمان ہے اور عوام احتساب چاہتے ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ 10سال میں لوٹ مار کا جو بازار گرم رہا اس کا حساب لیا جائے، چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار شفاف احتساب ہورہا ہے۔ کوئی بھی کسی بھی پارٹی کا ہو اس کا حکومت پر کوئی کنٹرول نہیں۔ ضیاءالحق نے ان کی پارٹی بنائی اور تربیت کی۔ فواد چوہدری کی اس بات پر اپوزیشن ارکان اسمبلی برہم ہوگئے اور ہنگامہ اور شور کرتے ہوئے سپیکر سے کہا کہ انہیں آداب سکھائیں۔ ڈپٹی سپیکر نے نازیبا الفاظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فواد چوہدری کے الفاظ حذف کردئیے۔ فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب سے کہا کہ آپ نے بھی ابھی جانا ہے حوصلہ رکھیں۔ ان داغدار لوگوں سے لوٹے گئے پیسے واپس لیں گے۔ احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ وزیر مملکت مواصلات نے کہا کہ آج جس طرح سے ایوان کی کارروائی آگے بڑھ رہی تھی تو سوچ رہے تھے آج قانون سازی ہوگی۔ کیا اپوزیشن کرپشن سے متعلق اس قرارداد سے اتفاق کرتی ہے ؟ انہوں نے کہا میں کیسز آگے ضرور بھجوا¶ں گا اور تمام فائلیں دوں گا، میں نے تمام منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کرایا، آڈٹ پیراز کاحوالہ نہیں دیا۔اپوزیشن کے مطالبے پر بھی مراد سعید نے مبینہ طورپر این آراو مانگنے والوں کا نام نہیں بتایا،مراد سعید کی تقریرکے دوران اپوزیشن ارکان نے بار بارنام بتانے کامطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ میری ذمے داری ہے کہ جب پوچھا جائے تو وہ نام دوں گا۔کوئی یہ نہ سمجھے کہ اگر نام پردے میں ہے تو اس کو معافی مل جائے گی۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس نے قوم کا ایک بھی پیسہ کھایا اسے معاف نہ کرنے کی قرارداد آنی چاہیے، جس نے ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کا حساب کتاب ہونے دیں۔ سابق حکومت نے ورثے میں بدترین معاشی صورتحال چھوڑی ہے۔ بعض سابق وزراءاعظم کے ٹیکس ریٹرنز کی ہمارے پاس تفصیلات موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم نے 1980ءمیں صرف 534 روپے ٹیکس دیا۔ بہتر ہے کہ اس معاملے پر ایوان آگے بڑھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ایک تہائی آئین میں ترمیم کی گئی۔ اس وقت نیب کا قانون کیوں تبدیل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کیونکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہی نہیں تھا کہ ان کے گریبان پر بھی ہاتھ پڑ سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مسلم لیگ(ن) کے رہنماءخواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سعد رفیق کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں شدید گرما گرمی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی ، خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں شدید گرما گرمی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ مسلم لیگ (ن)اورپیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ احتساب اداروں کو اپوزیشن کو دبانے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیب کالا قانون ہے جسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی،حکومت پارلیمان کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئی جس سے پارلیمنٹ کی بالادستی ختم ہو گئی ہے،اپوزیشن لیڈر کا 64دن کا ریمانڈ لیا گیاقتل کے ملزم کا ریمانڈ14دن سے زیادہ نہیں ہوتا،نیب نے اگر الزامات پر ہی اپوزیشن کو گرفتار کرنا ہے تو پھر وزیر اعظم سمیت وزراءکو بھی گرفتار کیا جائے جن کیخلاف تحقیقات چل رہیں ہیں، تمام وزراءامتحان میں پاس ہو گئے مگر ملک کو فیل کر دیا ،، باتوں سے کام ملک نہیں چلے گا،ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں،اسی طرح گرفتاریاں جاری رہیں تو قومی اسمبلی کا اجلاس اڈیالہ جیل میں ہو گا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ احتساب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر الزام خود میری ذات پر ہے اس لئے نہیں کہوں گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔شاہد خاقان عباسی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ احتساب سے بھاگنے والے نہیں، اگر اپوزیشن کو دباﺅنے کے لیے نیب کو استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے حوالے ایوان کو آگے کرتے اور ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کراتے،حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہمارا ان گرفتاریوں سے کوئی تعلق نہیں تو کون یہ سب کرارہا ہے، جب احتساب انتقام میں بدل جائے تو جمہوریت بھی خطرے میں ہوتی ہے اور پارلیمان کی بالادستی بھی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ قائد ایوان پر ہیلی کاپٹر کیس ہے، اپوزیشن لیڈر کی طرح عمران خان کو بھی گرفتار کیا جائے۔ نیب اپوزیشن پر ایسے الزامات لگاتا ہے جیسے وہ مجرم ہیں،آج میڈیا ٹرائل ہوگیا تو کل انصاف کیسے ملے گا؟ نیب کے چیئرمین کی بات نہیں کررہے، نیب کے ادارے کی بات کررہے ہیں،بے عزتی اپوزیشن کی بھی ہورہی ہے اور حکومتی ارکان کی بھی۔انہوں چیئرمین نیب ،ڈی جی اور نیب کے افسران اراکین پارلیمنٹ کا نام لے لے کر الزمات لگا رہے ہیں،اگر بغیر ثبوت کے صرف الزامات پر گرفتار کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن دونوں طرف سے کریں،قائدحزب اختلاف صرف الزامات پر گرفتار ہو سکتا ہے تو قائد ایوان بھی گرفتار کیاجا سکتا ہے،سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جو آج ہورہا ہے وہ پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی چیزوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، لیکن وہ آمر کا دور تھا، ملک میں جمہوریت نہیں تھی لیکن آج اس کا کیا جواز ہے، کوئی جواب دینے والا ہے، اسپیکر اسمبلی احتساب سے نہیں انتقام سے اراکین اور پارلیمنٹ کو بچائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک نے وزیروں کو فیل کردیا لیکن وزیراعظم نے انہیں پاس کردیا۔حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں جن کا نام ای سی ایل پر نہیں لیکن ایف آئی اے نے ایئرپورٹ پر روک لیا، زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ہے لیکن وزیراعظم اپنے جہاز میں بٹھا کر عمرے پر لے جاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں احتساب کے حق میں ہوں، یہ بھی بتائیں کہ ٹیکس کون چوری کرتا ہے،الزامات نہ لگائیں، ادارے حکومت کے ماتحت ہیں، تحقیقات کریں۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی سابقہ کارکردگی دیکھ کر ان کا تقرر کیا، اگر احتساب چاہتے ہیں تو مجھ سے شروع کریں اور ہر ممبر بتائے جب سیاست میں آیا تھا تو اس کے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے۔ اس ہا¶س سے احتساب شروع کیا جائے اور یہ بھی بتائیں کہ اس ہا¶س کے ممبران کتنا ٹیکس دیتے ہیں، ادارے آپ کے پاس ہیں اور ریکارڈ آپ کے پاس ہیں، پتہ کریں کونسی کرپشن ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو معیار سعد رفیق کے لیے رکھا اس پر موجودہ کابینہ کے 70فیصد ارکان اندر ہوں گے،آج کوئی افسر کام نہیں کرتا، کہتے ہیں آپ بچائیں گے نیب سے۔بابراعوان کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہورہی، صرف پیشیاں ہیں،کام ان سے ہونا نہیں، الزام تراشیاں کی جارہی ہیں۔ اپوزیشن کو دبانے کے لیے احتساب کے ادارے استعمال کیے جا رہے ہیں، ہم احتساب سے نہیں گھبراتے لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما نے کہا کہ کے پی کا احتساب بیورو بنا تھا، اربوں کاخرچہ ہوا کوئی پوچھنے والا نہیں، جہانگیر ترین کے بارے میں عدالتی حکم آیا وہ بھی آزاد پھر رہے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو نیب آج کر رہا ہے وہ احتساب نہیں ملک کی تباہی کا راستہ ہے، آج بیوروکریٹ کام نہیں کرتے، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق پر ساڑے 4 سو ارب کا مقدمہ بنایا اور 7 سال گزر گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ علیم خان پر نیب کا بنایا ہوا کیس ہے انہیں بھی گرفتار کیا جائے، بابر اعوان پر بھی کیس ہے ان کو بھی گرفتار کر لیں۔ علیمہ خان کو بھی گرفتار کیا جائے،سپیکر پنجاب اسمبلی کو بھی گرفتار کیا جائے۔ وزیر دفاع کو بھی پکڑا جائے، ہم تحفظ نہیں انصاف مانگ رہے ہیں۔اگر عدلیہ اور فوج اپنا دفاع کر سکتی ہے تو پارلیمنٹ کیوں نہیں تاکہ ادارے اراکین کو دبا نہ سکیںان کی وفا داریاں تبدیل نہ کراسکیں،نواز شریف دوسو پیشیاں بھگت چکے ،جن پر دو سوارب روپے کے الزامات ہیں ان سے کوئی نہیں پوچھ رہا۔انہوں نے کہا کہ وزراسارے پاس ہو گئے ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،تین مہینے کے امتحان میں کوئی فیل نہیں ہوالیکن ملک فیل ہو گیا۔ حکومت کام کرے اور مسائل حل کرے، کیونکہ گالی گلوچ کا زمانہ چلا گیا ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنماءسید نوید قمر نے کہا کہ جس طرح سے اپوزیشن کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں لگتا ہے ون پارٹی رول کرنا چاہتے ہیںایسا تو آمریت میں ہوتا ہے جب اپوزیشن ساری جیل میں ہو تی ہے،بلاول بھٹو زرداری سے اس وقت کا سوال کیاجارہا ہے جب وہ ایک سال کے تھے،،راجہ پرویز اشرف کے خلاف ایک مجرم کو وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا ہے۔ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ اتنا گند پھینکیں کچھ نہ کچھ تو لگ ہی جائے گا۔ یہ احتساب کے ادارے سیاستدانوں کو قابو کر نے کے لیے بنائے گئے ہیں،نوید قمر نے خواجہ سعد رفیق کے فوری پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہورہی ہیں لگتا ہے قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑیں گے، حکومت کا مقصد صرف اپوزیشن کو گندہ کرنا ہے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ملک آج تباہی کی انتہا تک پہنچ چکا ہے اور اس کی وجوہات چھپانے کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں کرپشن ہو ئی ہے ،ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مالی کرپشن ہی ملک کی تباہی کی وجہ بنی ہے اور اسی کی وجہ سے عوام زبوں حالی کا شکار ہیں۔کیا کبھی کسی نے سیاسی کرپشن کے بارے میں بھی سوچا ہے جو 1947 ءسے ہوتی آرہی ہے،سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانا، سیاسی پارٹیوں کو توڑنا،منتخب حکومتوں کو ختم کرنا،کیا ان کا بھی احتساب ہو گا؟چاہے ان کا تعلق سیاسی ایلیٹس سے ہو،عدلیہ سے یا سپریم عناصر سے،انہوں نے کہا کہ عوام کے پاس سیاستدانوں کا الیکشن میں احتساب کرنے کااختیار ہے لیکن کیاان کو یہ اختیار ملتابھی ہے،عوام لائنوں میں لگ کر ووٹ ڈالتے ہیںلیکن نتائج سپریم اتھارٹیاں ہی نکالتی ہیں۔ان کا بھی کوئی احتساب کرے گا جنہوں نے ووٹوںکے ڈبے بھرے،ڈبے چرائے اور مہریں لگائیں،مجھے تو ملک میں دو ہی چیزیں سپریم نظر آتی ہیں ایک ”وہ“ ہیں اور ایک سپریم چائے ہے۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ایک طرح کے مقدمات کے فیصلے بھی ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ ایوان جس جانب چل پڑا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اگر اس طرح ہم ایک دوسرے کو چور چور کہتے رہے تو ہمیں منزل نہیں ملے گی۔ ہم سے جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ موجودہ حکومت نہ کرے۔ کمیٹیاں قائم نہ کرکے ایوان کو عضو معطل نہ بنایا جائے۔
قومی اسمبلی