ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ شام میں لڑنے والے امریکی حمایت یافتہ کرد باغیوں کے خلاف نیا فوجی آپریشن شروع کیا جائےگا جس کے بعد نیٹو ممالک سے ترکی کے تعلقات پر اثر پڑنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اردوان نے کہا کہ ہم فرات کے مشرقی حصے کو علیحدگی پسند گروپس سے بچانے کے لیے چند دنوں میں آپریشن شروع کریں گے۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہدف امریکی فوجی نہیں ہیں، یہ ایک دہشت گردی تنظیم ہے جو خطے میں متحرک ہے۔ترک صدر نے امریکا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سےدیانت دار نہیں ہیں، انہوں نے تاحال مانبج سے دہشت گردوں کو ختم نہیں کیا اس لیے ہم خود کریں گے۔اردوان کی طرف سے یہ اعلان دفاعی صنعت کے حوالے سے ایک اجلاس کے بعد سامنے آیا جس کا مقصد شمالی شام میں ترکی کی شکایات کےباوجود امریکا کی جانب سے قائم کی گئی پوسٹ کا جائزہ لینا تھا۔طیب اردوان نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے ریڈار اور پوسٹس قائم کرنا ہمارے ملک کو دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کرنا نہیں بلکہ دہشت گردوں کو ترکی سے محفوظ رکھنا ہے۔یاد رہے کہ ترک فوج نے 2016 اور رواں سال کے اوائل میں بھی کردوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں اور انہیں فرات کے مغربی علاقے میں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ترک فوج کا کہنا تھا کہ وائی پی جی کی جانب سے عفرین میں مہاجرین کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا جس کو ترکی پہلے ہی دہشت گرد تنظیم گردانتا رہا ہے جبکہ اسی طرح کے حملے ایک روز قبل بھی کیے گئے تھے۔