’’زلمے پخیر راغلے‘‘

زلمے خلیل زاد امن کے نازک آبگینوںکی ٹوکری اپنے سر پر اُٹھائے دوحہ قطر میں بخیر و عافیت طالبان مذاکرات کاروں سے ہینڈ شیک کر چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے اور امریکہ کے سربرآودہ اور کامیاب سفارتکار ہیں۔ انڈیا کی طرف سے امن کے اس متلاشی کے سر پر رکھی ’’امن کے نازک آبگینوں‘‘ کی ٹوکری ’’انڈین خَشت باری‘‘ کی زد میں ہے۔ تین ماہ قبل انڈیا کی زہریلی اور خطرناک سفارت کاری کے پس منظر میں صدر ٹرمپ نے انتہائی جوشیلے اور غصیلے انداز میں زلمے خلیل زاد کے سر سے یہ ٹوکری اُتاری اور وائٹ ہائوس واشنگٹن کے ’’صدر مقام‘‘ پر اسے پوری دنیا کے سامنے اس زور سے زمین پر پٹخا کہ ’’امن کے نازک آبگینے سارے کے سارے چکنا چُور ہو گئے۔ بظاہر وجہ یہ بتائی گئی کہ طالبان نے افغان فورسز پر اپنے ایک شدید حملے میں متعدد فوجیوں کو ہلاک کر دیا جن میں ایک امریکی فوجی بھی شامل تھا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکہ کھلا
امریکہ کے مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے حالیہ دنوں میں اپنی ایک اشاعت میں افغانستان جنگ کے بارے میں امریکی اداروں اور امریکی افواج کے افسران کے حوالے سے خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر کئی انکشافات کئے ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دو ہزار صفحات پر مشتمل ان خفیہ دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان جنگ میں اب تک خواتین سمیت دو ہزار تین سو امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک امریکی فوجی کی ہلاکت ہزاروں افغان فوجیوں کی ہلاکت پر بھاری کیسے ثابت ہوئی اور کیونکر ثابت ہوئی؟ اس کے پس پردہ انڈیا کی زہریلی سفارت کاری کا اثر کارِفرما ہے شدید زخمی امریکی فوجیوں کی تعداد بیس ہزار سے بھی زائد ہے۔ صدر ٹرمپ کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ افغان امن کے ان نازک آبگینوں کوتوڑنا ایک تاریخی جُرم اور فاش غلطی تھی۔
تین ماہ کی مسلسل پیوند کاری کے بعد زلمے خلیل زاد افغان امن کے ان نازک آبگینوں کو اصل حالت میں لیے قطر کے صدر مقام دوحہ میں تشریف لائے ہیں۔ ’’زلمے خلیل زاد پخیر راغلے‘‘ زلمے خلیل زاد، انگریزی، پشتو اور فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے انہیں پشتو زبان میں خوش آمدید کہا ہے۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے لکھا کہ افغان جنگ میں ایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔
’’اخبار واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے یہ معلومات جنگی اخراجات اور نااہلی کا محاسبہ کرنے والے سرکاری ادارے ’’سپیشل انسپکٹر جنرل فارافغانستان رِی کنسٹرکشن‘‘ سے لی ہیں،، ’’ریٹائرڈ نیوی آفیسر جیفری ایگرز نے جو وائٹ ہائوس میں بھی متعین رہے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ’’اُسامہ بن لادن اپنی آبی قبر میں جنگ کے نتائج پر یہ سوچ کر ہنس رہا ہو گا ہم نے اس جنگ میں کتنا پیسہ خرچ کر ڈالا۔‘‘
قارئین کرام! واشنگٹن پوسٹ نے‘‘ ایک امریکی افسر کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ سماجی تبدیلی لانے کے لیے سماجی نظام تبدیل کرنے کے لیے امریکہ نے افغانستان میں تقریباً 138 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔ مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اتنی رقم سے جنگ عظیم کے بعد آدھے یورپ کی معیشت کو بحال کر دیا گیا تھا۔ قارئین کرام! اتنے بھاری جانی و مالی نقصانات کے ساتھ جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس پس منظر میں محض انڈیا کی خوشنودی اور مفادات کے لیے امریکہ افغانستان کے ساتھ جنگ کو جاری نہیں رکھ سکتا۔
انڈیا اس کی ایجنسیاں اور لابی امریکہ طالبان مذاکرات کی بحالی سے سخت رنجیدہ اور پریشان ہے۔ افغانستان سے وابستہ انڈیا کے مفادات اور علاقائی اجارہ داری کے حصول کی ساری کوششیں اور سکیمیں افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلتے ہی دم توڑ جائیں گی۔
انڈیا چاہتا ہے دنیا کی نظریں صرف افغانستان پر مرکوز رہیں اور مقبوضہ کشمیر پر اس کی ظالمانہ اجارہ داری اور قبضے کے خلاف اور کشمیری مسلمانوں پر انڈین فوجوں کے مظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہ ہو۔ کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم، ظالمانہ قبضے اور بدترین و طویل ترین کرفیو کے خلاف دنیاکے کونے کونے سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
کرام طالبان افغانستان اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی اب محض چند دنوں کی بات ہے۔امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اس بات کی نوید ہے کہ عنقریب جنگ بندی بھی ہو گی اور امریکی فوجیں بھی افغانستان سے نکل کر واپس چلی جائیں گی۔
امریکہ اور اس کے ادارے مزید جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات اور صورتحال نے امریکہ کو اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین کی پوری دنیا میں پھیلتی اور آگے بڑھتی معاشی پالیسیاں امریکہ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ امریکہ پاک چین اقتصادی راہ داری کو بھی اپنے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔
افغانستان کی جنگ امریکہ کے لیے دنیا کی مہنگی ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔ طالبان کے خلاف ایک ٹریلین ڈالر سے بھی کئی گُنا زیادہ اخراجات کرنے کے بعد بھی طالبان تروتازہ اورجواں ہمت ہیں اور طالبان نے ہر طرح سے لیس امریکی فورسز کواُن کے کیمپوں تک محدود کر دیا ہے۔
یہ صورتحال پوری دنیاکے سامنے ہے۔ روس دُنیا کی اُبھرتی ہوئی مضبوط لیڈر شپ بن کرامریکی پالیسیوں کو چیلنج کررہا ہے۔ شام اور ترکی کے بعد سعودی عرب نے بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان بھی تعلقات گرمجوشی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ روس کی طرف سے ایک بڑا سرکاری وفد روس کے وزیر تجارت کی سربراہی میں پاکستان کے سرکاری دورہ پر اسلام آباد میںہے۔ اس دورے میں دوطرفہ اربوں ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں۔
امریکہ ان تبدیلیوں اور دنیاکے بدلتے حالات اور صورتحال سے بے خبر نہیں ہے۔ ایران کے خلاف امریکی پالیسیوں کی شدت میں یکدم سو فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان کے خلاف بھی امریکی پالیسیوں کی شدت میں نمایاں کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ ڈومور کے مطالبے بہت کم ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے طالبان امریکہ مذاکرات کی بحالی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہرممکن طریقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان اور امریکہ کودوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے دوحہ قطر میں شروع ہونے والے حالیہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے اور فریقین سرخروئی سے ہمکنار ہوں گے۔ ہماری دعا ہے افغانستان امن کا گہوارہ بنے اور خون مسلم کی ارزانی بند ہو۔

ای پیپر دی نیشن