گذشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں جو کچھ ہوا اسے ریاستی اداروں کے بحران کا افسوسناک دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔ حکومت عام سی صورت حال کو سنبھالنے میں بے بس دکھائی دی لیکن خوش قسمتی سے ایک غیر متوقع مداخلت کے سبب حالات بگڑنے سے بچ گئے۔ دراصل یہ صورت حال پس پردہ کام کرنے والی مذموم ریاستی قوت (Deep State)کی سازشی چالوں نے پیدا کی جس کی تشریح سوشل سائنسدانوں نے ان الفاظ میں کی ہے:
"The real government that exists beneath the surface, as shadowy conspirators, who use street power, to thwart the agenda of the sitting government, skillfully manipulating the power of the state institutions."
ترجمہ: یہ ریاست کے اندر ایک ایسی مذموم ریاست ہے جو حقیقی ریاست کے پس منظر میں رہ کر کام کرتی ہے اور سازشی عناصر کے تعاون سے برسراقتدار حکومت کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لئے انتہائی مہارت سے ریاستی اداروں کو ہی استعمال کر کے عوامی احتجاج کے سہارے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔
یہی پس پردہ ریاستی قوت ہے جو مولانا فضل الرحمن کو سنہرے خواب دکھا کے بھاری ہجوم کے ساتھ اسلام آباد کے قریب لانے میں کامیاب ہوئی جس کا منصوبہ تھا کہ حفاظتی حصار توڑ کر ڈی چوک کی حدود میں داخل ہوں اور فوج کے ساتھ مڈبھیڑکر کے ریاست کومحصور کر کے بپھرے ہوئے ہجوم کے حوالے کر دیا جائے مگر خوش قسمتی سے مولانا کو اس سازش کا بروقت ادراک ہو گیا کہ انہیں مذموم عزائم کی خاطرقربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا مقصد تھا تو انہوں نے اپنا پروگرام بدلتے ہوئے پلان ’بی‘ اور’ سی‘ کی جانب اپنا رخ کر لیا۔ اسی طرح کی سازشیں ماضی میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہی ہیں جو فوجی مداخلت کا باعث بنی ہیں۔ یہاں فرق یہ ہے کہ فوج ہی کو ہدف بنایا گیا تھا۔
آئیے 1999ء کی فوجی مداخلت کے اسباب کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔14 اگست 1998ء کو پاکستان عوامی اتحاد نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں نشتر پارک کراچی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن جب ہم بلاول ہائوس میں اس جلسے کا تنقیدی جائزہ لینے کی خاطر اکٹھے ہوئے تو نوابزادہ صاحب نے اعلان کیا کہ ’’اب ہمارا یک نکاتی ایجنڈا ہے‘ نواز شریف ہٹائو۔‘‘ محترمہ نے بھی ان کی رائے کی تائید کی۔ یہ دیکھ کر میں اس اتحاد سے علیحدہ ہو گیا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے گرینڈ ڈیمورکریٹک الائنس(GDA) بنا یاجس میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ تحریک انصاف اور نوابزادہ صاحب کے اتحاد کی متعدد جماعتیں شامل تھیں۔
اتحاد کا اعلان کرنے سے پہلے اتحاد کے شرکاء مرحوم اجمل خٹک کے زیر قیادت مجھ سے ملاقات کرنے میرے گھر آئے اور مجھے اتحاد میں شامل ہونے کی پیشکش کی۔ تحریک کے اہداف بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہماری تحریک فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرے گی جس کے بعد90 دن کے اندر انتخابات ہوں گے اور ہمارا اتحاد فتح حاصل کر کے حکومت بنائے گا۔‘‘ میں نے اتحاد میں شامل ہونے سے معذرت کر لی کہ ’’آپ غلط بندے کے پاس آئے ہیں۔ یاد رکھیں فوج کبھی انتخابات نہیں کرائے گی اور آپ انتظار کرتے رہ جائیں گے۔‘‘ حسب توقع12 اکتوبر1999ء کو جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالااور نوسال تک حکومت کرتے رہے۔
اسلام آباد کے دھرنے کے وقت مولانا جس خطرناک صورت حال سے دوچار تھے اس سے انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے قدم نکال لئے لیکن اب انہیں اس طاقت کے مظاہرے سے ایک بڑا سیاسی مقام حاصل ہوا ہے جسے استعمال کر کے وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں کہ قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں جیت کرقومی سیاسی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ اگر انہوں نے بیس پچیس سیٹیں بھی حاصل کر لیں تو ہر وہ جماعت جو حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی وہ مولانا کے سہارے بغیر حکومت نہ بنا سکے گی۔
دوسری جانب حکومت کے ایوانوں میں بھی کچھ اسی طرح کی کمزوری نظر آئی۔ حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے معاملے میں انتہائی لاپروائی کا مظاہرہ کیا تو سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حکومت کے لئے سردردی کا سبب ان کے اپنے اقدامات تھے کیونکہ ایسا لگا گویا ان سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے اور خود ہی آرمی چیف کو توسیع دینے کے اپنے حق سے دستبردار ہو گئی اور اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا کہ نظریہ ضرورت کے تحت حکومتیں پچھلے ستر سالوں سے اس روایت پر عمل کرتی رہی ہیں۔ مثلا پانچ آرمی چیفس‘ تین نیول چیفس اور ایک ایئر چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دے چکی ہیں
۔ مصلحتاً ایسی روایت کی گنجائش رکھی جاتی ہے تاکہ حکومت ضرورت کے تحت استفادہ کر سکے۔
جنرل کیانی کو دی جانے والی توسیع کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن عظمیٰ نے یہ کہتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ آئین کے آرٹیکل 199(3)کے تحت یہ مقدمہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ حیرت انگیز صورت حال یہ پیدا ہوئی ہے کہ حکومت نے کابینہ‘ وزیراعظم اور صدر مملکت کی منظوری سے آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دی لیکن چند ہی دنوں بعد حکومت خود مغلوب ہو گئی کہ شاید انہوں نے کوئی غیر آئینی کام کر دیا ہے اور معاملے سے دستبردار ہو گئی۔ عدالت عالیہ نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا حالانکہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہی نہیں تھا اور اب اسے درست کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے حوالے کی جا چکی ہے۔
حکومت کو مولانا کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ انہوں نے حکومت کونہ صرف شرمندگی سے بچا لیا بلکہ ایک بڑے خطرے سے بھی بچا یاہے۔ اب مولانا کے ساتھ شامل تمام عناصر کو قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی سعی کی جانی چاہیئے تاکہ یہ نظرانداز شدہ قوت کہ جن پر بہت سی خرابیوں کا جو الزام لگایا جاتا رہا ہے ‘جن کے وہ ذمہ دار بھی نہیں ہیں‘ اس سے انہیں چھٹکارا مل سکے۔ اسی طرح یہ بھی مناسب ہوگا کہ اس قسم کی سازشیں تیار کرنے والے عناصرکو گرفت میں لایا جائے اور باقائدہ تفتیش کی جائے جو قومی سلامتی جیسے اہم معاملات کے لئے خطرے کا باعث بنے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور سزا کے حقدار ہیں۔
٭…٭…٭