لانگ مارچ اور کابینہ میں ’’دھماکہ خیز‘‘ تبدیلی 

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان ٖ ڈیمو کریٹک موومنٹ  کا گوجرانوالہ ، کراچی ، کوئٹہ، پشاور ملتان کے بعد آج لاہور میں آخری جلسہ ہو رہا ہے اس کے بعد پہیہ جام ہڑتال ، شٹر ڈائون اور چاروں صوبائی دار الحکومتوں میں ریلیوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں قومی اور صوبائی اسمبلیو ں سے مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ پر لیا گیا ہے تاہم پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو 31دسمبر 2020ء تک استعفے اپنی  قیادت کو جمع کرانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے تو تجویز پیش کی تھی کہ تمام جماعتوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفے مولانا فضل الرحمن کے حوالے کئے جائیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی جو تا حال استعفوں کے بارے میں تذبذب کا شکا ر ہے فی الحال اس نے مولانا فضل الرحمن کے حوالے استعفے دینے سے اتفاق نہیں کیا البتہ اس نے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کے حوالے کرنے کی نئی تجویز پیش کر دی جسے پی ڈی ایم نے قبول کر لیا۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے اپنے قائدین کو استعفے بھجوانا شروع کر دئیے ہیں پی ڈی ایم کی سٹیئر نگ کمیٹی نے تاحال  پہیہ جام ہڑتال ، شٹر ڈائون اور ریلیوں کی تاریخ کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن اس نے جنوری 2021ء کے آخری ہفتے اسلام آبا د لانگ مارچ کا فیصلہ کر دیا ہے۔ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان بھی جلد کر دیا جائے گا۔ 31جنوری 2020ء کو لانگ مارچ کی کال دینے کا امکان ہے۔ دوسری طرف حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے 2014ء میں خود لانگ مارچ کی قیادت کی ہے نے جہاں کرونا وائرس کی لہر میں شدت آنے کے باعث اپوزیشن سے دو ماہ کے لئے جلسے جلوس ملتوی کرنے کی اپیل کر دی ہے وہاں انہوں نے بھی اپوزیشن کے لانگ مارچ  کے پیش نظر وفاقی کا بینہ میں ’’دھماکہ خیز ‘‘ تبدیلیاں کی ہیں ۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو وفاقی وزیر داخلہ بنادیا ہے بظاہر اس وزارت کا دائرہ اختیار وفاقی دار الحکومت اسلام آباد تک محدود ہے لیکن اس وزارت کے تحت کم و بیش 19شعبے آتے ہیں ۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں اس وزارت کی اتنی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ آج ہر وزیر وفاقی وزیر داخلہ بننا چاہتا ہے۔ شیخ رشید احمد جن کی صبح کا آغاز اپوزیشن کی صفوں پر گولہ باری سے ہوتا ہے ان کے ناتواں کندھوں پر یہ ذمہ داری اپوزیشن کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لئے ڈالی گئی ہے۔ 70سالہ شیخ رشید احمد اور شاہ محمود قریشی شاید دو وزیر ہیں جو کم و بیش تین عشروں سے مختلف وزارتوں کا بوجھ اٹھائے چلے آ رہے ہیں شیخ رشید احمد 15بار وزیر بننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ بات حقیت ہے کہ ان کے پاس نواز شریف ، میر ظفر اللہ خان جمالی ، شوکت عزیز اور اب عمران خان کی حکومتوں اہم وزارتیں رہی ہیں شنید ہے موجودہ حکومت کی5اہم شخصیات نے جن میں وفاقی وزرا ء بھی شامل ہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کے لئے رابطہ قائم کیا ہے لیکن حکومتی شخصیات کو پی ڈی ایم کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ انہوں نے اپوزیشن کو این آر او کے سوا ہر ایشو پر مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اگر اپوزیشن حکومت خلاف تحریک کو معطل کر دے تو حکومت اپوزیشن کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے تیار ہے۔ اپوزیشن کی طرف حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کو یکسر مسترد نہیں کیا تاہم کو ئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا ہے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کو مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ بھی شامل ہے جس پر حکومت کسی صورت  بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سر دست حکومت انتخابی اصلاحات ، نیب قوانین مین ترامیم اور مڈٹرم اانتخابات کی تاریخ  کے تعین پر بات چیت پر آمادہ ہے دوسری طرف اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں کی حکومت کے ساتھ’’ بامعنی‘‘ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے جاتی امرا میں مسلم لیگی رہنمائوں سے بات چیت کے دوران انہیں ’’پوا ئنٹ آف نو ریٹرن ‘‘پر نہ پہنچنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی گنجائش رکھی جائے۔ ذرائع کے مطابق ملک کی ایک اہم شخصیت نے بھی میاں شہباز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کی ہے۔ اس دوران انہوں نے ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کی تاہم فریقین نے مصلحتاً اس ملاقات کو خفیہ رکھا ہے۔ اس شخصیت کی ملاقات کی وجہ سے میاں شہباز شریف کے پیرول میں ایک روز کی توسیع کی گئی تھی 
لیکن اپوزیشن کی طرف سے ’’جلسہ جلوس ‘‘ اور ’’ایجی ٹیشن ‘‘ سیاست ترک نہ کرنے پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں اہم تبدیلی کی ہے اور شیخ رشید احمد جو ماضی میں خود بھی مختلف تحاریک میں حصہ لیتے رہے ہیں کو پی ڈی ایم کی تحریک کو غیر موثر بنانے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ شیخ رشید احمد کو وفاقی وزارت داخلہ کا قلمدان دینا در اصل اپوزیشن کو پیغام دینا ہے کہ اگر اپوزیشن کے طرز عمل میں الچک پیدا نہ ہوئی تو انہوں نے بھی پی ڈی ایم کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لئے ایک سخت گیر شخص کو وزارت داخلہ کا قلمدان دے دیا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین آصف علی زرداری دونوں ’’علیل ‘‘ ہیں لیکن وہ وڈیو لنک پر مسلسل پی ڈی ایم کے ہر سربراہی اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت کر رہے ہیں جب کہ میاں نواز شریف نے دوبارہ پارٹی اجلاسوں سے خطاب شروع کر دیاہے۔ شنید ہے انہوں نے پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے اور اس اتحاد کو آئندہ دو انتخابات تک برقرار رکھنے کا عہد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ پی ڈی ایم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف نے اگلی ٹرم پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دینے کا تقاضا کیا ہے اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار دینے کی تجویز پیش کی ہے جس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ۔ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے ’’جیل بھرو تحریک ‘‘کی تجویز پیش کی اور کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہان یا اہم رہنمائوں میں سے کسی کی گرفتاری ہوتی ہے تو اس آپشن پر غور کیا جائے، تمام جماعتیں اپنے کارکنوں کو اس حوالے سے تیار رکھیں، گرفتاریوں کی صورت میں احتجاجی لائحہ عمل اور قومی شاہراہوں کی بندش بھی کی جائے۔ پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومت کی جوابی تیاریوں کے باوجود مذکرات کی میز کسی وقت سج سکتی ہے۔ آج پی ڈی ایم لاہور جلسہ میں ’’چارٹر آف ڈیمانڈ ‘‘ کا اعلان کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس چارٹر آف ڈیمانڈ پر کس طرح کا رد عمل کا اظہار کرتی ہے ؟اس سوال کا بھی آج ہی جواب مل جائے گا ۔

نواز رضا… مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن