وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کے روز وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا ہے۔ سب سے اہم تبدیلی فرزند راولپنڈی شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمدان سونپنے کی ہے۔ دوسری اہم تبدیلی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی وزارت خزانہ کا قلمدان دینا ہے۔ شیخ رشید کی وزارت ، سواتی کو دے دی گئی ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے پاس نارکوٹکس ڈویژن کی ذمہ داری آ گئی ہے۔ کابینہ میں قلمدانوں کی تبدیلی وزیر اعظم کی صوابدید ہوتی ہے لیکن یہ تبدیلی عمومی طور پر لمبے وقفوں کے بعد ہوتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کابینہ میں پانچ سالہ دورِ حکومت میں کئی رد و بدل کئے اس کے بعد جنرل ضیاء الحق، محمد خان جونیجو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف بھی اپنی کابینہ میں وزراء کے قلمدان تبدیل کرتے رہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی کو سہ ماہی بنیادوں پر جانچیں گے۔ انھوں نے گذشتہ اڑھائی سال میں کئی وزراء کے قلمدان تبدیل کئے۔ خاص طور پر معاشی ٹیم کے اندر رد و بدل کیا جاتا رہا۔ انھوں نے اپنے ایک قریبی اور معتمد ساتھی اسد عمر کو وزارت خزانہ سے الگ کر کے ان کی جگہ ایک غیر منتخب اکانومسٹ عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد اسد عمر کو دوبارہ کابینہ میں شامل کر لیا۔ اعظم خان سواتی پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام لگا اور معاملہ عدالت کے پاس پہنچا تو ان سے استعفیٰ بھی لیا گیا لیکن بعد میں انھیں پھر کابینہ میں اکاموڈیٹ کر لیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں میں خصوصی معاونین اور مشیروں کا تقرر بھی کیا۔ ان مشیروں میں انھوں نے ایک اہم تبدیلی اپنے خصوصی معاون اور مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو فرائض سے سبکدوش کر کے کی۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کے مشیروں اور خصوصی معاونین سے متعلق جو فیصلہ دیا ہے، اس میں قرار دیا گیا ہے کہ خصوصی معاونین اور مشیر وزیراعظم کو مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن وہ ایگزیکٹیو اختیارات استعمال نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہ بن سکتے ہیں، اس فیصلہ کے نتیجے میں معاونین خصوصی اور مشیروں کے کردار کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو از سر نو غور کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ دنوں جب سینئر صحافیوں کی وزیراعظم سے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے مشیروں اور معاونین کے بارے میں ہائیکورٹ کے فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس فیصلے کو قانونی فورم پر چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں، فی الحال انھوں نے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو جو نہ اسمبلی کے رکن ہیں اور سینیٹ کے، وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ مشیر خزانہ کو مارچ میں ہونیوالے سینیٹ کے الیکشن میں سندھ سے سینیٹر بنوانے کی کوشش کی جائیگی۔ اس طرح وہ وفاقی وزیر کا عہدہ برقرار رکھ سکیں گے۔
جہاں تک فرزند راولپنڈی کا تعلق ہے۔ گذشتہ ماہ انھوں نے وزیر اعظم سے جب ملاقات کی تھی تو اس ملاقات کے بعد انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا تھا کہ وزیراعظم نے انھیں وزارت داخلہ سنبھالنے کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر غور کر رہے ہیں۔ موجودہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ ایک سینئر اور منجھے ہوئے منتظم ہیں لیکن ان کی صحت کے مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ وزارت داخلہ کے امور شاید اس انداز میں انجام نہیں دے پا رہے تھے جس کا حالات تقاضا کر رہے تھے۔ حکومت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے احتجاج سے نمٹنے کا درپیش ہے۔ پی ڈی ایم نے احتجاجی جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور اگلے سال جنوری میں وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن کی طرف سے شروع کی گئی تحریک سے نمٹنے کیلئے ایک سیاسی بیک گرائونڈ رکھنے والے وزیر داخلہ کی ضرورت شاید محسوس کی گئی اور سب سے سینئر سیاستدان شیخ رشید کو یہ قلمدان سونپا گیا۔ شیخ صاحب کیلئے بھی یہ قلمدان ایک چیلنج ہے۔ انہیں ایسے وقت میں وزیر داخلہ بنایا گیا ہے جب حکومت کو اپوزیشن کی شورش کا سامنا ہے اور یہ اپوزیشن دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ اگلے سال کے شروع میں حکومت کو گھر بھیج کر رہے گی۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو جہاں ایک مضبوط وزیر داخلہ کی ضرورت ہے وہاں اسے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لئے پس پردہ بات چیت کیلئے راستہ کھولنے کی بھی ضرورت ہے۔ شیخ رشید ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ ان کیلئے یہ چیلنج ہو گا کہ وہ اپوزیشن کی موجودہ احتجاجی تحریک کو طاقت کے ذریعے غیر موثر بنائیں گے یا بات چیت کا راستہ اپنائیں گے۔ اگلے چند ہفتے شیخ صاحب کیلئے بھی امتحان سے کم نہیں ہونگے۔
اپوزیشن کا دبائو یا کچھ اور ؟
Dec 13, 2020