’’حضرت داتا صاحب ؒ کی پکڑ!‘‘
معزز قارئین یہ میری تحقیق ہے کہ’’ میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کا زوال اِس لئے ہُوا کہ وہ …
’’ گنج بخشؒ فیض عالم ، مظہرِ نورِ خُدا ! ‘‘
…O…
حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ کی ’’ پکڑ ‘‘ ( گرفت ) میں آگئے ہیں ۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دَور میں میاں نواز شریف نے الحمرا ء لاہور میں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی ؒ کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں اعلان / وعدہ کِیا تھا کہ ’’ ہم بہت جلد لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام سے ’’علی ہجویری یونیورسٹی ‘‘ قائم کریں گے لیکن اُنہوں نے اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کِیا۔
11 دسمبر 2014ء کو بھی’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے وائس چیئرمین (اب مرحوم) ڈاکٹر رفیق احمد کی صدارت میں منعقدہ تقریب میںمہمان خصوصی وزیر مذہبی امور میاں عطاء محمد مانیکا نے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید سے وعدہ کِیا تھا کہ ’’ میاں نوازشریف بہت جلد اپنا یہ وعدہ پورا کر دیں گے !‘‘ لیکن کچھ نہیں ہُوا؟۔
کئی مقدمات میں ملوث مفرور میاں نواز شریف کے سمدھی محمد اسحاق ڈار نے جب 7جون 2013ء کو وزارتِ خزانہ کا حلف اُٹھایا تھا تو 9 جون کو راولپنڈی میں میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ سیّد علی ہجویری کی طرف سے "On Deputation" وفاقی وزیر خزانہ بنا کر اسلام آباد بھجوایا گیا ہے !‘‘۔
عجیب بات ہے کہ ’’ حضرت داتا گنج بخشؒ سے معافی مانگنے کے بجائے کئی مقدمات میں ملوث مفرور اسحاق ڈار نے یکم دسمبر2020ء کو "B.B.C" کو انٹرویو دیتے ہُوئے عجیب ’’بونگی ماری اور ‘‘ کہا کہ ’’ پاکستان میں "Judicial Martial Law"۔ نافذ ہے ! ‘‘۔حالانکہ وزیراعظم نواز شریف اُن کا سارا خاندان اور مسٹر اسحاق ڈار وغیرہ تو 28 جولائی 2017ء کو، ’’عدالتی انقلاب ‘‘(Judicial Revolution) کی زد میں ہیں اور اُس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری ،اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور اُن کی پارٹی کے کئی دوسرے لوگ بھی ۔
’’بھائی، بہن چارا !‘‘
(سابق صدر ) جنرل پرویز مشرف کے دَور میں 16 مئی 2006ء کو لندن میں دو سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے "Charter of Democracy"(میثاقِ جمہوریت) پر دستخط کئے تو مَیں نے اپنے کالم میں اُسے ’’بھائی ، بہن چارا ‘‘ قرار دِیا تھااور جب، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے سیاسی اتحاد کِیا تو اُسے بھی مَیں ’’ بھائی ، بہن چارا ‘‘ ہی کہتا ہُوں ۔ 11 دسمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے جاتی عمرا میں مریم نواز صاحبہ سے اُن کی دادی مرحومہ محترمہ شمیم اختر (المعروف آپی جی ) کی وفات پر تعزیت کی ۔ یہ اُن کا اخلاقی فرض تھا۔
’’کون سی پیپلز پارٹی؟ ‘‘
معزز قارئین 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چیئرمین ؔبلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار انتخابی نشان ’’ تلوار ‘‘ والی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ (پی پی پی) اور ماشاء اللہ حیات آصف علی زرداری کی صدارت ؔمیں (مرحوم ) مخدوم امین فہیم کی یاد گار انتخابی نشان ’’ تیر والی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ (پی پی پی پی) رجسٹرڈ تھیں لیکن آصف زرداری صاحب کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لِیا۔ وہ خُود اپنے والد صاحب کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی پی پی پی) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے لیکن اِس کے باوجود موصوف چیئرمین ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کہلاتے ہیں ۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ …
’’ مر سَوں مرسَوں ، سندھ نہ ڈیسوں!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ مَیں مر جائوں گا لیکن کسی بھی مخالف پارٹی کو صوبہ سندھ میں حکومت بنانے نہیں دوں گا !‘‘۔
’’استعفیاں دا ڈبا!‘‘
اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ ’’ جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری صوبہ سندھ کا سیاسی قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتے اور نہ اُن کی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اور ارکانِ صوبائی اسمبلی؟‘‘ ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ بہت سے ارکان قومی اسمبلی نے اپنے اپنے استعفے فضل اُلرحمن صاحب کے حوالے کردئیے ہیں ۔ ممکن ہے اُنہوں نے وہ کسی ڈبے میں ’’سانبھ ‘‘ کر رکھ لئے ہُوں ؟ اِس موضوع پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنے سیاسی ماہیا میں کہا کہ …
’’ سانبھ رکھیں سجا ، کھبا ماہیا !
کدھرے گواچ نہ جاوے !
استعفیاں دا ڈبا ماہیا !‘‘
… O …
جہاں تک بلاول ہائوس لاہور کا تعلق ہے ، وہ تو سالہا سال سے اُداس ہے اور سائیں سائیں کرتا ہے ۔ نامور (مرحوم) شاعرناصر کاظمی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ …
’’ دِل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ!
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے!
…O…
اور ہاں عام انتخابات سے پہلے ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے دربار داتا صاحبؒ پر حاضری دینے والی ایک سیاسی کارکن کا یہ ماہیا بیان کِیا تھا کہ …
’’ داتا دِی ملنگنی آں!
قومی اسمبلی وِچ ،
اِک سیٹ پئی منگنی آں!
…O…
بہر حال مریم نواز صاحبہ مبارک باد کی مستحق ہیں کہ اُنہوں نے مینار پاکستان لاہور پر جلسہ عام میں خطاب کرنے سے پہلے حضرت داتا گنج بخش ؒ کے دربار میں حاضری دے دِی ہے لیکن میں سوچ رہا ہُوں کہ "P.D.M" کے قائد فضل اُلرحمن صاحب کو وہاں کون لے جائے گا ؟ ۔
(ختم شد )
’’مُلا کی سیاست، جاتی عُمر، بلاوس ہائوس لاہور!‘‘(2)
Dec 13, 2020