بھارت کے چیف آف سٹاف جنرل بپن راوت کی حادثاتی موت نے بہت سے سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں۔ پوری دنیا کے ماہریناس کو عام حادثہنہیں سمجھتے اس کے پیچھے کار فرما حکمت عملی اور سازشوں کی کھوج لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بھارت اپنے بھرم کو قائم رکھنے کے لیے کھل کر نہ تو اس پر بات کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس بارے میں ہونے والی سازشوں کو سامنے لانے میں سنجیدہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کو اچھی طرح علم ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا دفاعی نظام متاثر ہو گا۔ اس کے سیاسی معاملات پر کاری ضرب لگے گی۔ اس کے بین الاقوامی معاملات متاثر ہوں گے لہٰذا قوی امکان ہے کہ بھارت اسے ایک حادثہ قرار دے کر پی جائے گا۔ اس طرح وہ اپنے عوام کو تو شاید اندھیرے میں رکھنے میں کامیاب ہو جائے لیکن دنیا بھارت کے اندر جنم لینے والے اختلافات کو بڑی اچھی طرح سمجھ چکی ہے جو بھارت کے اندرونی سسٹم میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی حقیقتوں کو واضح کرتی ہے۔ اس کا پس منظر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ جنرل بپن راوت کے معاملات کو سمجھا جائے۔ جنرل بپن راوت بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے بہت قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ مودی نے 2016ء میں سنیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل بپن راوت کو آرمی چیف بنایا تھا۔ انہوںنے تیسرے نمبر سے اٹھا کر جنرل بپن راوت کوبھارتی بری فوج کا سربراہ بنایا تھا وہ مودی کے فلسفہ سے ہم آہنگی رکھنے والے جنرل تھے۔ وہ ہندواتا کے داعی تھے اور مودی کے جارحانہ اقدامات کو سراہتے ہوئے سیاسی طور پر مودی کو سپورٹ کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ بھی بھارتی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مودی کی طرح شدنیاں چھوڑتے رہتے تھے۔ وہ بیک وقت چین اور پاکستان سے لڑنے کی بڑھکیں بھی مارا کرتے تھے ۔اسی ہم آہنگی کے باعث مودی نے اس کو 2019ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نیا عہدہ تخلیق کر کے تینوں فوجوں کے سر پر بیٹھا دیا۔ اس سے تینوں فوجوں کے اندر تحفظات پائے جاتے تھے۔ جنرل بپن راوت کی بے جا مداخلت نے ان تحفظات کو مزید ہوا دی خاص کر نئے آرمی چیف اور بھارت کے ائیر چیف اپنے معاملات میں ان کی بے جا مداخلت سے تنگ تھے۔ اوپر سے بھارت بیک وقت امریکہ کو بھی کھلا رہا تھا اور روس سے بھی پیار کی پینگیں بڑھا رہا تھا جو کہ امریکہ کو بالکل پسند نہیں۔ بھارت روس سے ڈیفینس سسٹم خرید رہا تھا جس پر امریکہ نے باقاعدہ دھمکی دی تھی۔ اس پر بھارتی ایئر چیف کی جنرل بپن راوت سے ان بن تھی لہٰذا خفیہ ہاتھوں نے جنرل بپن راوت کو راستے سے ہٹا کر بھارت کی قیادتِ کو پیغام دیا ہے کہ من مانی نہیں چلے گی۔ بہت پہلے میں نے لکھا تھا کہ ہم امریکہ کی دوستی کے بڑے مزے لوٹ چکے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں اب بھارت بھی مزہ چکھ کر دیکھ لے۔ امریکہ کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی۔ امریکہ اب پوری طرح بھارت کی صفوں میں گھس چکا ہے اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ بھارت کو چین سے لڑوا دے ۔اس کے لیے وہ اسرائیل کے ذریعے بھارت کو ہلہ شیری دے رہا ہے۔ امریکہ نے بھارتی فوج کے اندر اپنی مضبوط لابی پیدا کر لی ہے اختلافات کی ابتدا ہو چکی ہے۔ بھارت عملی طور پر اس قابل نہیںکہ امریکہ کی خواہشات پوری کر سکے لیکن اب بری طرح پھنستا چلا جا رہا ہے بھارت امریکہ کے عشق میں علاقائی ممالک کے تعاون سے بھی ہاتھ دھوتاجا رہا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا ،نیپال اور ایران سے بھارت کے وہ والے تعلقات نہیں رہے جو پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔ بھارت جوں جوں امریکہ کے قریب ہو رہا ہے علاقائی سطح پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس حادثے کے ذریعے بھی ایک خاص قسم کا ماحول پیداکیا جا رہا ہے اور اس سازشی تھیوری کو پرموٹ کیا جا رہا ہے کہ ہیلی کاپٹر کو چینی میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اوپر سے جائے حادثہ تامل ناڈو بھی شورش زدہ علاقہ ہے ۔بھارتی قیادت کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ جو ہمارے احکامات سے روگردانی کرتا ہے ہم اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں ۔اس حادثے کو نہ جانے کیوں 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے سی ون تھرٹی طیارے کے حادثہ سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ بھارت اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہے مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معاشرہ تقسیم ہو چکا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک نے بہت بڑی آبادی کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بہت ساری ریاستوں میں علیحدگی کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں لڑانے‘ اقلیتوں پر ظلم وستم‘ مذہبی انتہا پسندی اور من مرضی کے فیصلے اب اپنا رنگ دکھانا شروع ہو گئے ہیں۔