بات زیادہ پرانی بھی نہیں۔ پچھلے ہی اتوار لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 133میں ضمنی انتخاب ہوا۔ اگلے روز اخبارات میں پورا الیکشن دیکھ پڑھ لیا۔ الیکشن پھسپھسا سا تھا ۔ وہ جو بڑے بوڑھے سیانے کہا کرتے ہیں کہ آج کے نوجوانوں میں طاقت کرنٹ کہاں سے آئے ۔ پھوکا پانی ملتا ہے انہیں پینے کو۔ کرنٹ طاقت ساری واپڈا والے بجلی بناتے ہوئے اس پانی سے پہلے ہی نکال لیتے ہیں ۔اسطرح یہ الیکشن بھی کرنٹ، پھڑک ، جوش ، ولولے سے خالی تھا۔ اس الیکشن میں حکومتی پارٹی شامل ہی نہیں تھی اور ان کے حریف ن لیگی ووٹروں کو شکست کا ذرہ بھر احتمال نہ تھا۔ سو ان کی الیکشن میں مرنے مارنے والی دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ لاہور ہی میں ایک صاحب ہوتے ہیں جمشید اقبال چیمہ ۔ کوئی ایک آدھ خوبی ان میں اور بھی ہوگی ۔ ہم ان کی واحد خوبی ان کا بے پناہ امیر کبیر ہونا ہی جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چندہ کوئی امیر آدمی ہی دے سکتا ہے ۔ ادھر ہمارے کپتان کو زیادہ چندہ دینے والے لوگ ہی زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہی اپنے قریب رکھتے ہیں۔ ہلکی جیب والے یہ شعر پڑھتے ہوئے دور سرکتے چلے جاتے ہیں۔
جو کوئی آوے ہے پاس ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جائیں
اس وقت جمشید اقبال چیمہ کپتان کے آس پاس ہی کہیں ہو نگے جب ممبر قومی اسمبلی حلقہ 133پرویز ملک نے اپنے آخری سانس لئے۔ ابھی ان کی رحلت کی خبر شاید الیکشن کمیشن کو نہ پہنچی ہو کہ جھٹ سے جمشید اقبال چیمہ کیلئے اس حلقہ سے تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ کا اعلان بھی ہو گیا۔زیادہ ہی رازداری کا معاملہ تھا سو کورنگ امیدوار بھی ان کی بیگم صاحبہ ہی قرار پائیں۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے شکست خوردہ امیدوار اعجاز چودھری تھے ۔ بیشک انہیں الیکشن ہارنے کے بعد تشفی کیلئے سینٹ بھجوا دیا گیا ہے۔ پھر بھی ان کے بہت سے افراد خانہ اسمبلی جانے کو منتظر بیٹھے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ادھر معاملہ بہت گنجلدار ہے اور اسے سمجھنے کیلئے پہلے بہت کچھ اور سمجھنا پڑتا ہے ۔جناب قیوم نظامی پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن ہیں۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے ۔ کوڑے بھی کھائے ۔ جلا وطنی بھی جھیلی ۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ’’نوائے وقت ‘‘ کے باقاعدہ کالم نگار بھی ۔ اوقاف کا محکمہ بڑازرخیز محکمہ ہے ۔ ایک عرصہ یہ محکمہ سرکاری طور پر ان کی تحویل میں رہا۔ کچھ فیضیاب ہوئے یا نہیں؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ کچھ لوگ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ان کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ بھوکے پیاسے ہیں یا’’ رجھے‘‘ ہوئے ؟ ویسے کوڑوں کے بارے یار لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سے کوڑے کھانے والے نظریاتی کارکنوں نے اس کا حق الخدمت پورا پورا وصول کرلیا تھا ۔ نظامی ذہین آدمی ہیں ۔ سیاست سمجھ چکے ہیں۔ خود جاگ چکے ہیں ۔ جانتے ہیں کہ بندے کو کتنا جاگنا چاہئے اور کہاں جاگتے ہوئے بھی آنکھ بند رکھنی چاہئے ۔ کالم نگار ان سے کہتا رہتا ہے کہ لوگوں کی بے گھری پر بھی کچھ لکھیں۔ ٹائون ڈویلپرز، ہائوسنگ سوسائٹیز اور ڈی ایچ اے پر قلم فرسائی کریں۔ لیکن سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک شاندار کالم ۔ ’’اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان ‘‘ میں ہماری ساری سیاست کا کچا چٹھا بیان کر کے رکھ دیا ہے ۔ لکھتے ہیں : ’’70 ء کے الیکشن کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ کسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں لینے دی جائیگی۔ ذو الفقار علی بھٹو کی پھانسی اسٹیبلشمنٹ کا افسوسناک فیصلہ تھاجو امریکی سامراج کی آشیر باد سے کیا گیا۔اسٹیبلشمنٹ نے مقبول عوامی لیڈر ذو الفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹا کر الطاف حسین اور نواز شریف کو لیڈر بنا لیا۔ جو اپنے طور لوکل باڈیز کا الیکشن جیتنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ۔ گویا اسٹیبلشمنٹ جسے چاہے اقتدار بخشتی ہے ، جسے چاہے زیرو سے ہیرو بنا دیتی ہے اور جسے چاہے ہیرو سے زیرو کر سکتی ہے ۔ اب ایک اطلاع اعتزاز احسن کی زبانی بھی سن لیں۔ وہ بھی ہیں رازداران اندرون میخانہ ، بتا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت سب سے زیادہ قابل قبول چوائس بلاول بھٹو ہیں۔ قیوم نظامی کے کالم اور اعتزاز احسن کی لائی ہوئی خبر کے بعد الیکشن حلقہ این اے 133سے تحریک انصاف کی دستبرداری پوری طرح واضح ہو جاتی ہے ۔ ورنہ کامیاب بزنس مین جمشید اقبال چیمہ اتنے بھولے اور بے خبر بھی نہ تھے کہ نہ جانتے ہوں کہ الیکشن کے کاغذات نامزدگی کیسے پُر کئے جاتے ہیں۔ تجویز کنندگان اور تائید کنندگان کا اسی حلقہ سے ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔ در اصل اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں انٹری چاہتی ہے ۔ وہ تحریک انصاف کو مہنگائی کے لعن طعن سے بھی بچانا چاہتی تھی ۔ اگلے الیکشن تک مہنگائی بھی کچھ نہ کچھ سنبھال لی جائے گی اور کچھ بیچارے لوگ بھی اس کے عادی ہوجائیں گے ۔ باقی تحریک انصاف کو جیسے اور جیسا حکم ملا تعمیل حکم کر دی گئی ۔ ورنہ لبیک والوں کوانڈین ایجنٹ قرار دینے والے ،انہیں گرفتار کروانے والے، انہیں رہائی دلوانے والے ، رہائی پر پھول پیش کرنے والے اور اسے بیہودہ حرکت قرار دینے والے بھی سبھی ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ کھلا تضاد ہرگز نہیں۔مختلف اوقات میں جیسے تیسے احکام ملتے رہے تعمیل حکم ہوتی رہی ۔ سو حلقہ این اے 133کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے نصف لاکھ سے کچھ کم ووٹوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے 32000سے کچھ زائد ووٹ ظاہر کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو سندھ کی حکومت کے ساتھ مرکز سے بھی کچھ ہاتھ آنے والا ہے ۔ ورنہ پیپلز پارٹی کتنے پانی میں ہے سب جانتے ہیں۔بنانے والے جسے چاہیں زیرو سے ہیرو بنا سکتے ہیں۔