جمعہ کے روز بھارت میں بپن راوت کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ اْن کو اہلیہ سمیت ایک ہی چِتا میں جلایا گیا جِسے آگ اْن کی بیٹیوں نے لگائی۔ بھارت کے سابق آرمی چیف اور پہلے چیف آف آرمی ڈیفنس سٹاف بپن راوت اپنی اہلیہ اور دیگر12 لوگوں سمیت اْس ہیلی کاپٹر میں حادثہ کا شکار ہوئے جو دنیا کے متعدد ممالک میں محفوظ ترین تصور کیا جاتا ہے۔ روس کے بنائے اس ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر کو ایم آئی سیونٹی کہا جاتا ہے جس کا اپنا ریڈار سسٹم دو طاقتور انجن ہیں یہ 250 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہزار کلومیٹر تک مسلسل پرواز کر سکتا ہے اور 13 ہزار کلو وزن اْٹھا سکتا ہے۔ انڈیا نے 2012ء میں ایسے 200 ہیلی کاپٹر روس سے خریدے تھے۔ چین سمیت دیگر متعدد ممالک کے پاس بھی ایسے ہیلی کاپٹر موجود ہیں جن کا پہلا حادثہ انڈیا میں سامنے آیا ہے۔ بھارت اپنا دفاعی سسٹم کافی حد تک مضبوط کر چکا ہے جس کے پیچھے اْن کے سابق آرمی چیف بپن راوت ہی کی پالیسیاں کارفرما ہیں جو زیادہ تر کشمیر کے محاذ پر رہے اور مختلف بیانات بھی داغتے رہتے تھے ۔کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کرنے کا بیان بھی اِنہی کا تھا اور چین کو پاکستان سے بڑا بھارتی دشمن قرار دینے کا بیان بھی دے چکے تھے۔ آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے بپن راوت کو چیف آف ڈیفنس کا ایک نیا عہدہ بنا کے تعینات کر رکھا تھا۔ وہ نریندرمودی کے منظورنظر اور بھارتی فوج کے طاقتور ترین جرنیل تھے۔ اْن کے بیانات اور پالیسیوں کے باعث بھارت کے اندر اْن کے خلاف محاذ آرائی کے حالات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت نے اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لیے بپن راوت کی تجویز پر ہی 2016ء میں روس سے پانچ ارب ڈالر مالیت کا ایس 400 خودکار اینٹی میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا لیکن 2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے روس کی 39 کمپنیوں سے تجارت پر پابندی عائد کر دی اْن میں ایس 400 اینٹی میزائل بنانے والی کمپنی بھی شامل تھی ‘ لیکن امریکی دباو کے باوجود بھارت اپنا یہ معاہدہ اس بنا پر برقرار رکھے ہوئے تھا کہ اْس نے امریکی پابندی لاگو ہونے سے ایک سال پہلے یہ معاہدہ کر لیا تھا۔ دفاعی تجارت کے ساتھ ساتھ بھارت چین کے بعد اقتصادی تجارت میں امریکہ کا بہت بڑا حلیف ہے۔ 2018ء میں ان کی باہمی اقتصادی تجارت 146.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور بھارت ایک دوسرے سے تجارتی جنگ کے محاذ پر بھی لڑ رہے تھے۔ امریکہ نے بھارتی سٹیل پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی اور بھارت نے امریکہ کی 28 اشیاء پر محصولات لگا دئیے جس پر امریکہ نے عالمی ادارہ تجارت میں بھارت پر کیس بھی کر رکھا تھا۔ امریکہ کی یہ تجارتی جھڑپیں چین اور بھارت کے ساتھ بیک وقت چل رہی تھیں۔ انڈیا نے امریکہ سے ہر سال 42 ہزار کروڑ ڈالر کی زرعی، ڈیری اور پولٹری مصنوعات خریدنے کا معاہدہ بھی کیا تھا جس کے خلاف انڈیا بھر میں کسان مظاہرے شروع کرا دئیے گئے تو ہزار ڈالر سالانہ بھارتی، امریکی ، معاہدہ ابھی زیر تکمیل ہے۔ بھارت نے 2016ء میں روس سے جو خودکار اینٹی میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کر رکھا تھا وہ دفاعی میزائل سسٹم ہے جو 400 کلومیٹر کی زمینی اور 30 کلومیٹر کی فضائی رینج میں کسی بھی مخالف میزائل، بموں اور ڈرون کو خودکار طریقے سے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ روس نے ماسکو کی فضائی حدود کے تحفظ کے لیے یہی سسٹم نصب کر رکھا ہے اورچین کے پاس بھی موجود ہے۔ 2015 ء میں شام کے اندر فضائی حملوں سے تحفظ کے لیے اسی اینٹی میزائل سسٹم کو استعمال کیا گیا تھا جو 100 فضائی حملوں کو ایک ہی وقت میں روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ نے روس کی اس کمپنی سے سودا رکوانے کے لیے اکتوبر 2020 ء میں بھارت سے (بی ای سی اے ) کا معاہدہ کیا جس کے تحت بھارتی ریڈار سسٹم کو امریکی سیٹلائٹ سے منسلک کر دیا گیا اور بھارتی حدود میں کسی بھی جنگی میزائل یا جہاز کی درست لوکیشن معلوم کر کے اسے نشانہ بنانا بھارت کے لیے ممکن ہو گیا ، لیکن اس کے باوجود بھارت ، روس سے اپنے اینٹی میزائل سسٹم ایس 400 کی خریداری کے معاہدے پر قائم رہا دو ہفتے قبل اسی سلسلے میں روسی صدر بھارتی دورہ کر کے واپس گئے۔
گزشتہ سال دسمبر میں بھی میں نے ایک تفصیلی کالم لکھا تھا کہ تیسری عالمی جنگ خلا سے ہو گی۔ یورپ، امریکہ، روس اور چین 1980ء اور 90ء کی دہائی سے خلا میں ایسے ہتھیار بھجوا کر اپنے خلائی سٹیشن قائم کر رہے ہیں جو کسی بڑی جنگ سے قبل حیاتیاتی، کیمیاوی، موسمیاتی اور خلائی ہتھیاروں کے تجربات کی طرف واضح اشارہ ہے ، جن میں ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں جو نظر نہ آنے والی لیزر شعاعوں سے خلا اور زمین میں موجود کسی بھی پٹرول والی مشینری ، کمپیوٹر، میزائل، جہاز اور ٹینک کو آگ لگا کے تباہ کر سکیں گے۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی مسلسل آگ کو ایسے ہی ہتھیاروں کے تجربات سے منسوب کرنے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی زمینی حقائق تھے۔ لداخ کے اندر چینی اور بھارتی جھڑپوں میں بھی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی غیر تصدیق شدہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں جب کہ کووڈ 19 کو بھی حیاتیاتی ہتھیار سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ سائنسی ایجادات میں تو کسی جگہ کے موسم کو ٹھیک یا خراب کرنے کی صلاحیت تک چند ممالک کے پاس موجود ہے۔