گزشتہ سے پیوستہ

محمد اعجاز تنویر
سالانہ دس ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہوجانے  کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ ورک بھی وسیع ہوگا۔ اگر اس طرح کی حکمت عملی اختیار نہیں کی جائے گی تو پھر ایف بی آر بمقابلہ دکاندار ، جھگڑا چلتا رہے گا۔
٭  بجلی کا بل اور ٹیکس
 پہلے مرحلے میں بجلی کے بل کے حساب سے فکس ٹیکس کی سلیبز بنائی جائیں۔  اس طرح  کتنا ٹیکس ہو نا چاہیے؟ بڑی آسانی سے پتہ چل سکتا ہے۔
1:۔20,000  بجلی کے بل پر ماہانہ 2000 یعنی 24000 روپے سالانہ 2:۔35,000  بجلی کے بل پرماہانہ 3000 یعنی 36000 روپے سالانہ
3 :۔55,000  بجلی کے بل پر ماہانہ 4000 یعنی 48000 روپے سالانہ
4:۔75,000  بجلی کے بل پرماہانہ 5000 یعنی 60000 روپے سالانہ
5:۔100,000  بجلی کے بل پر ماہانہ 6000 یعنی 72000 روپے سالانہ
٭ مربع فٹ اور ٹیکس بمطابق سلیب
یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک دوسرا فارمولا بھی اختیار کیا جاسکتا ہے:  دکان کے رقبہ کی بنیاد پر یعنی مربع فٹ کے لحاظ سے فکس ٹیکس کے بجائے اس  کے لئے بھی مختلف سلیبز بن سکتی ہیں:اے کیٹٹیگری،بی کیٹٹیگری، سی کیٹٹیگری۔اسی طرح اپر پرو فائل ایریامڈل،پروفائل ایریااورلوئر  پروفائل ایریا میں بھی اسے  درج ذیل طریقے سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔500  تا 1000 مربع فٹ کیلئے7 ہزارسے 15 ہزار اور25 ہزار تک کی حد ہو سکتی ہے۔  
2۔1000 تا 1250 مربع فٹ رقبہ کیلئے15ہزار سے 25ہزار اور 40 ہزار  تک کی حد ہو سکتی ہے۔
ہمارے خیال میں اگر ہماری ان گزارشات پر غور و فکر کیا جائے تو مسائل کے حل کے لئے راہیں نکل سکتی ہیں۔ ایف بی آر والے کہتے ہیں کہ ہم کیسے اندازہ کریں کہ کون بڑا کاروباری ہے اور کون چھوٹا؟  ہم نے دنیا میں آزمودہ طریقے بتا دیے ہیں جن کے ذریعے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ اگر ٹیکس گزاروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا، ان کے لئے راہیں آسان کی جائیں گی ، تو وہ بڑی سے بڑی منزل کے حصول میں ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن مشکل راستے سفر کرنے والوں کو ترک سفر کی طرف لے جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن