صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر 

Dec 13, 2021

راجہ شاہد رشید

بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پائوں رزق ظالم کی تجوری میں چھُپا بیٹھا ہےنئے پاکستان میں غربت ‘ بے روزگاری اور مہنگائی کا نہ رُکنے والا یہ سونامی محرومیوں‘ مایوسیوں اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں اور ایک عام انسان دو وقت کی روٹی کو روتا ہے اور پینے کے لیے صاف پانی کر ترستا ہے۔ بس بھیک ہے اور بھوک ہے‘ آئی ایم ایہف کے شکنجے ہیں اور بیرونی بھاری سودی قرضوں کی کوک ہے۔ میں نے  ماضی میں ہی لکھ دیا تھا کہ ’’ نواز حکومت جس طرح قرضوں پہ قرضے لے رہی ہے لگتا ہے یہ حکمران اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالیں گے اور یہ آثار صاف ظاہر ہو رہے ہیں کہ اگلی حکومت کا انحصار بھی قرضوں پہ ہو گا بلکہ آغاز بھی قرضوں سے ہی ہو گا۔‘‘ پھر یہی ہوا اور آج کے یہ مشکل ترین حالات و معاملات آپ سب کے سامنے ہیں کہ  سابق حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں تیس ہزار ارب کے قریب قریب قرض لیا تھا اور آج کی یہ حکومت اپنے 3 سال اور تین ماہ میں 48 ہزار ارب سے بھی زیادہ کے قرضے لے چکی ہے‘ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ 
ہم بھی کیا عجیب ہیں کڑی دھوپ کے تلے 
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر 
ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 18.35 فیصد اور بہت ہی کم آمدنی والے افراد کے لیے مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح 19.21 فی صد پر پہنچ گئی ہے‘ ملک میں ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی بڑھی ہے‘ حالیہ ایک ہفتے میں اکیس اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے نومبر تک تجارتی خسارہ 20 ارب 59 کروڑ ڈالر تک ہو گیا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج گر گیا ہے ۔ سرمایہ کار پریشان ہیں‘ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے‘ 350 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ‘  ایف بی آر نے ترمیمی فنانس بل وزارتِ قانون کو بھجوا دیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب میں پچھلے سال کی طرح آٹا بحران پیدا کرنے کیلئے سٹیک ہولڈرز پھر سے سر گرم ہو گئے ہیں اور بحران کا کلیدی کردار محکمہ خوراک ہے جس نے فلور ملز ایسوسی ایشن کے گرائینڈنگ چارجز چھ سو سے بڑھانے کی بجائے دو سو روپے کم کر کے چار سو روپے فی سو کلو بوری کر دئیے ہیں جس پر پاکستان فلور مل ایسوسی ایشن پنجاب نے ایک دن کی علامتی ہڑتال کی تو انھیں یقین دلایا گیا کہ جلد پنجاب کیبنٹ کمیٹی برائے گندم کے اجلاس میں چارجز بڑھانے کے اقدامات کریں گے لیکن اس کمیٹی کمیٹی کے کھیل کے بعد بھی ’’جیسے تھے‘‘ والی پوزیشن ہے الغرض نتیجہ صفر ہی رہا۔ کبھی چینی اور کبھی آٹا بحران آتا ہے جیسے ’’بارش ہوٹی ہے ٹو پانی آٹا ہے‘‘ ادویات ‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ دالیں‘ سبزیاں‘ چینی‘ گھی‘ آٹاسب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہیں جبکہ ان نااہل و نالائق حکمرانوں کے پاس کھوکھلے نعروں اور طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔  جناب اسد عمر  فرماتے ہیں کہ ’’15 روز میں مہنگائی سے چھٹکارا مل جائے گا‘‘ لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں اور گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ موصوف وزیر ہی منصوبے بنانے والے محکمے کے ہیں‘ بڑے ہی ماہر‘ مایہ ناز منصوبہ ساز ہیں اور منصوبے شیخ چلی کی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ صاحب اس سے قبل بحیثیت وزیر خزانہ منصوبے بناتے رہے ہیں جنھیں قومی اور عوامی سطح پر بے پناہ مقبولیت و قبولیت نصیب ہوئی ہے اس لئے ان کو کافی شہرت ملی ہے اور ساکھ بنی ہے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں عوام تھوڑا اور صبر کریں بس دو چار مہینے کا مشکل وقت ہے یہ ٹھیک ہو جائے گا ‘ عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ مہنگائی میں جلد کمی آئے گی‘ معیشت ترقی کر رہی ہے اور ہم درست سمت میں آگے جا رہے ہیں۔اس سے قبل کئی بار وزیر اعظم عمران خان بھی عوام کو سمجھا چکے ہیں کہ ’’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘ ہمارے پی ایم کے اس جملے کے بیرونی دنیا میں چرچے ہو رہے ہیں۔ خبر چھپی ہے کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے زبوں حالی کا شکار پاکستانی عوام کی پریشانیوں اور آلام کے تذکرے اب ملک سے باہر بھی ہونے لگے ہیں۔ سربیا میں پاکستانی سفارتخانے کے ملازمین کی جانب سے جاری ایک ٹویٹ اور پاکستانی گلوکار کی مزاحیہ ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس کا عنوان وزیرِ اعظم پاکستان کا بار بار بولا جانے والا یہ مشہور و معروف فقرہ ہے کہ ’’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘۔  پاکستان کے ایک  سفارتخانے کے سٹاف ممبرز نے سفارتخانے کے آفیشل اکائونٹ سے ٹویٹ کے ذریعے پاکستانی عوام کی اجتماعی پریشانی کی مئوثر انداز میں ترجمانی کی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان سے کہا گیا ہے کہ آپ ہم سرکاری اہلکاروں سے تنخواہ کے بغیر خاموشی کے ساتھ کب تک کام کرنے کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ کے اس نئے پاکستان میں ہمارے بچوں کو فیسوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سکولوں سے نکالا جارہا ہے۔ :
گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب 
بیٹی کسی غریب کی فاقوں سے مر گئی 

مزیدخبریں