کراچی ( نیوز رپورٹر ) انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے ملک بھر کے علماء و مشائخ کی نمائندہ تنظیم علماء مشائخ فیڈریشن آف پاکستان کے زیر اہتمام قومی امن رابطہ کانسل پاکستان کے تعاون سے منعقدہ سیمینار میں تمام مذاہب کی نمائندہ شخصیات نے کہا ہے کااسلام نے 14سو سال قبل انسانی حقوق کا جامع تصور پیش کیا، نہ صرف تصور پیش کیا بلکہ ریاست مدینہ کے اندر اس کی تنفیذ کو یقینی بنایا، اسلامی تعلیمات کا مرکز و محور تکریم انسانیت ہے میثاق مدینہ اس کی ایک زندہ و جاوید قابل فخر نظیر ہے، اسلام نے استحصال اور تشدد کو اس کی ہر شکل میں قابل مذمت اور قابل گرفت قرار دیا ہے،اسلام نے دیگر مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات اور حقوق کا بھی خیال رکھا ہے، دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے تقدس کی پامالی سے سختی سے روکا ہے،اِنسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے،صو فیا ئے کرا م ہی دین اسلام کے حقیقی سفیر ہیں جنہوں نے اپنے کردار و عمل کے ساتھ دین کی تبلیغ و اشاعت کر کے اسلام کی آبیاری کی۔ اولیا ء کاملین نے ا نسانیت کو محبت و اخو ت،امن و یکجہتی کی دعوت دے کرمہذب معا شرہ کی تشکیل کا شعو ر حقیقی عطا کیا، انسانی حقوق کی پامالی پر عالم دنیا کی خاموشی بہت بڑا ظلم ہے، ہر انسان آزاد پیدا ہوا، اسے غلام بنانے والے انسانیت کے دشمن ہیں،سیمینار سے ملک بھر کے علماء و مشائخ کی نمائندہ تنظیم علماء مشائخ فیڈریشن آف پاکستان کے چیئر مین سفیر امن پیر صاحبزادہ احمد عمران نقشبندی سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیج پیر جٹان، پیر سیدارشد حسین اشرفی، ملک شکیل قاسمی،پروفیسر ڈاکٹردلاور خان، پیر سید محمد خرم شاہ جیلانی،پروفیسر ڈاکٹر علامہ سعید سہروردی،پروفیسر ڈاکٹرمہربان نقشبندی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ، صوفی سید مسرورہاشمی خانی، پروفیسر ڈاکٹر علامہ ضیاء الدین،پر و فیسر علامہ ڈاکٹر محمود عالم خرم آسی جہانگیری،مولانا سلمان بٹلہ ، ’’کاگف‘‘سینئر وائس چیئرمین حاجی امداد علی لاشاری،جمیل احمد خان،سلطان محمود تا جوانی، مولانافیروز الرحمانی،بشپ خادم حسین بھٹو،مہاراج سردار امر سنگھ،پنڈت مکیش کمار،محمد اسلم خان،مذہبی اسکالر منوج چوہان،علامہ خلیل نورانی،صغیر احمد ایڈوکیٹ،عبدالوحید یونس،چوہدری اکرم،انور بن عباس اور دیگر مذاہب کی سرکردہ شخصیات و رہنماوں نے خطاب کیا،مقررین نے کہا کہ اِسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے، اِسلام کے دین امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی ’اِسلام‘ پسند کیا ہے،ارشاد فرمایا:بے شک دین کے نزدیک اِسلام ہی ہے،انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی سے ہی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہی ہماری حکومت کا عزم ہے، انسانی حقوق کی پاسداری اور فرائض کی ادائیگی ہم سب کی ذمہ داری ہے بلکہ حقوق کی پامالی کو روکنے کیلئے ہمیں اپنا عملی کردار اداکرکے مثالی معاشرہ تشکیل دینا ہوگا، انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے جس خطے میں بھی جنگ و جدل کا ماحول ہے اس کے پس منظر میں انسانی حقوق کی پامالی ایک بڑی وجہ کے طور پر نظر آئے گی، جب کسی شہری کے عزت نفس، جان مال کے تحفظ اور حق آزادی کے ضمن میں مروجہ اقدار و روایات اور قوانین کو پامال کیا جاتا ہے اور طاقت کے زور پر حق تلفی کی جاتی ہے تو اس سے تشدد، نفرت اور عسکریت پسندی جنم لیتی ہے جس کے امن عالم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،مقررین نے کہا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے گزشتہ سات دہائیوں سے مقبوضہ علاقے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، مقررین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کو دبانے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا انسانی حقوق کا دن منا رہی ہے لیکن کشمیر کے محصور عوام کو بھارت کی طرف سے بدترین سامراجیت کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن مظلوم کشمیریوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں در ج تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کا دن منانا کشمیریوں کے رستے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے کیونکہ اقوام متحدہ نے ان کے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی اور وہ ظلم و جبر کا مسلسل شکار ہیں۔مقررین نے افسوس کا اظہار کیا کہ 10 لاکھ سے زائد خونخوار بھارتی فوجی مقبوضہ جموںوکشمیر میں انسانیت کے خلاف گھناونے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں تاکہ کشمیریوں کو غیر قانونی بھارتی قبضہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے، کشمیر پر دنیا کی خاموشی بھارت کو مظالم کا لائسنس دے رہی ہے۔ہم کشمیر میں مسلمانوں پر توڑے گئے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت پر من و عن عمل کروایا جائے۔ انسانی حقوق کے عالمی دن پر ہم کشمیر کی عوام کو نہیں بھول سکتے۔ پچھلی 7 دہائیوں سے لاکھوں بھارتی فوجی کشمیر پر قابض ہیں، کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا گیا ہے لیکن کشمیری عوام آج بھی ثابت قدمی سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، دنیا کے 33ویں بڑے ملک پاکستان میں بھی سیاسی مافیا نے بنیادی انسانی حقوق سلب کر رکھے ہیں،مقررین نیکہا کہ کوئی خطہ، ریاست یا حکومت رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر انصاف کی راہ میں رکاوٹ حائل نہیں کر سکتی،پاکستان ایک گلدستے کی مانند ہے،اور مختلف مذاہب، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے اس کے پھول ہیں،پاکستان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی نہیں بنایا جاتا،انہوں نے کہا کہ کوئی مذہب کسی انسان کو حق نہیں دیتا کہ کمزوروں پر طاقت کے ذریعے کوئی حکم مسلط کرے اللہ نے انسان کو پیدا اس لیے نہیں کیا کہ وہ کسی کا غلام بن کر رہے ظلم کرنے والے لوگوں کو ہمیشہ زلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے کہا عالمی انسانی حقوق کا دن منانا ہی نہیں بلکہ ہمیں مسلسل انسانیت کے حقوق کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں رہتے ہوئے امن ترقی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، اقوام متحدہ اندھی بہری گونگی ہو گئی ہے، دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے صرف دکھاوے کے لیئے دن منایا جا تا ہے، اگر اقوام متحدہ واقعی انسانی حقوق کا خیال ہے تو ان کو مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کا بہتا ہو ا خون کیوں نظر نہیں آرہا ہے،مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوج تعینات کر رکھی ہے،بھارت نے جو بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔معصوم لوگوں کو سرعام شہید کیا جا رہا ہے،ہزاروں بے گناہ کشمیری عورتیں بچے پیلٹ گن سے بینائی سے محروم ہو چکے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں،انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کشمیر فلسطین سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں،زمین تمام انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے اس پر تمام انسانوں کا مساوی حق ہے چند ملکوں گروپوں یا افراد کی اجارہ داری قبول نہیں کی جا سکتی دنیا میں امن و سکون مساوی انسانی حقوق میں مضمر ہے،پاکستان میں جاگیردار‘ وڈیرے سرمایہ دار اور اشرافیہ انسانی حقوق کی بری طرح پامالی کر رہے ہیں جس کے خاتمے کیلئے 14سو سال قبل انسانی حقوق کے جامع پیش کیئے گئے تصور پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔