ڈیفالٹ کے منڈلاتے بادل


ایک طویل جدوجہد کے بعد پاکستان ابھی فیٹف (FATF) کی گرے لسٹ کے جھنجٹ سے آزاد ہوا ہی تھا کہ اب ڈیفالٹ کی تلوار ہمارے سر پر منڈلانے لگی۔ پاکستان میں کم و بیش ہر سیاسی جماعت موجودہ ملکی معاشی حالات پر اپنا الگ بیانیہ گھڑنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت کیا ہے وہ ہمیں صرف ایک آزاد معاشی ایکسپرٹ یا تجزیہ کار ہی بتا سکتے ہیں وگرنہ حکومتی معاشی ترم خاں تو آپس میں بھی اس معاملہ پر اُلجھ پڑے ہیں۔ 
ایک طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار جنہیں بڑے مسیحا کے طور پر طاقتور حلقوں کی جانب سے پاکستان میں انٹری کروائی گئی تھی، کچھ بیان دیتے ہیں تو دوسری طرف اسی پارٹی کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ایک الگ بیانیہ دے رہے ہیں۔ ان حالات میں کم از کم عوام کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دراصل ہم گرتی معیشت کی دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور یہ دلدل ہمیں دھیرے دھیرے اپنے اندر سمو رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کتنی دیر اس دلدل سے باہر اپنا وجود قائم رکھ سکیں گے۔ 
آج سے صرف چند ماہ قبل عوام کے جن مسائل پر میڈیا نوحہ خوانی کرنے میں زور و شور سے مصروف تھا آج پوری رجیم تبدیلی کے باوجود مسائل کا وہ انبار ٹس سے مس تک نہیں ہوسکا لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا ان تما م مسائل کی نشاندہی سے رو گردانی اختیار کر چکا ہے۔سابقہ گورنمنٹ میں ڈالر کے بڑھتے ریٹس پر ہر کوئی ہرزہ سرائی میں مصروف تھا اور شاید اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن آج کیا حالات ہیں؟ آج ان پنڈتوں کو سانپ سونگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت بھی مارکیٹ سے ڈالر غائب ہے۔ آپ صرف اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے موجودہ ریٹ اور سٹیٹ بینک کے جاری کردہ ریٹس کا موازنہ کروا لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ 
اس وقت تمام کمرشل بینک متفقہ طورپر ڈالر کی بیرون ملک سے ترسیل میں واضع کمی کے اعدادوشمار جاری کررہے ہیں جس کی اہم وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے تو سب سے اہم وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانی یعنی اوورسیز پاکستانی موجودہ حکومت پر ایک حد تک عدم اعتماد اور پاکستان کی معیشت میں مسلسل عدم استحکام کو بطور عذریا خدشہ پیش کرتے دکھائی دینگے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کی حکومت تبدیلی چاہے وہ آئینی طریقہ کار سے ہوئی یا نیوٹرل کردار کی وجہ سے، اوورسیز پاکستانی بظاہر اس تبدیلی کو دل سے قبول کرتے دکھائی نہیں دیتے۔دوسری بڑی اور اہم وجہ ڈالر کے کیش ریٹس میں بڑے مارجن کو بھی گرداناجا رہا ہے جو کہ اگر چند سِکوں یا پیسوں میں ہو تو قابلِ نظرانداز ہو سکتی ہے لیکن جب بات روپوں میں آجائے تو یہ فرق انویسٹرز پر رقوم کی ترسیل اور کیش کروانے کے حوالہ سے کافی منفی اثر مرتب کرتا ہے۔ 
ایک طرف حکومتی معاشی ماہرین ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں کم و بیش بے بسی کی تصویر نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی بزنس کمیونٹی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں آتی جس نے ملکی معیشت پر کچھ کم برے اثرات مرتب نہیں کئے۔آپ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہمارے بیشتر بزنس مین برآمد کروائی گئی مصنوعات کے محصول اس وقت تک پاکستانی بینکوں میں منگوانے سے گریز کرتے ہیں جب تک پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں واضع اضافہ کا ٹرینڈ نہ آجائے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر کی طلب و رسد میں بڑھتا فرق ایک ٹرینڈ (Trend) کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کا فائدہ وہ بزنس مین اٹھاتے ہیں جو اس وقت کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔ بظاہر تو اس معاملہ میں کوئی قانونی ہیچ نہیں کیونکہ قانون انہیں چھ ماہ کی مہلت دیتا ہے لیکن درحقیقت معیشت پر اس طرح مصنوعی طور پر منفی اثرات مرتب کردیئے جاتے ہیں جس کے باعث وہ ازخود فائدہ بھی اٹھا تے ہیں لیکن ملکی سطح پر معیشت بند گلی میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔
جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کا تعلق ہے ان سے ڈالر کی گرتی رسد کے حوالہ سے جتنا بھی شکوہ کرلیا جائے لیکن ان کے خدشات برملا حقیقی ہی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ کہا جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ملک میں انویسٹمنٹ اور زرمبادلہ ارسال کرنے کے رجحان میں واضع کمی ہے چاہے وہ رجیم چینج سے نالاں ہوں یا کسی اور وجوہات کی بنا پر اظہارِ خفگی کے مظاہرہ کے طور پر اپنا پیسہ روک لیا ہو۔ جس کی واضع مثال روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ سے بھی بڑی مقدار میں ڈالرز واپس اٹھا لئے گئے ہیں تو پاکستانی حکومت کے پاس ان کے ان خدشات و شکوہ جات کے جواب میں پیش کرنے کے لئے کیا جواز ہے؟ کم از کم آپ ان کا یہ شکوہ تو مانیں کہ خان نے انہیں پاکستانی سیاست میں حق رائے دہی کا جو اختیار دیا تھا آپ نے آتے ہی وہ بھی ان سے واپس لے لیا۔ وجوہات جو بھی ہوں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ایک حد تک غصہ جائز ہے۔ 
سیاست میں شخصیت پسندی کا عنصر ہر ماحول اور معاشرہ میں غالب رہتا ہے سیاسی پیمانے پر یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہمارے ہاں بڑے میاں صاحب کے ایسے فالورز بھی با آسانی دستیاب ہونگے جنہیں اگر میاں صاحب درخت یا کھمبے کو ووٹ ڈالنے کا حکم صادر کریں تو وہ دیوانہ وار ایک لمحہ بھی سوچنے پر وقف نہ کریں۔ کچھ ایسا ہی حال سندھ میں جیالوں کی اکثریت کا بھی ہے۔ ایسے ماحول میں آپ ایک مخصوص پارٹی کے فالورز کو کیسے اپنے لیڈر کو سپورٹ کرنے سے روک سکتے ہیں اگر روک بھی لیا تو اب بھی کچھ نہ کچھ تو ان کے بس میں ضرور ہے۔

ای پیپر دی نیشن