سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طلحٰہ نے گزشتہ روز صدر آزاد کشمیر سے ملاقات کی اور کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ انہوں نے صدر آزاد کشمیر کے ساتھ مظفرآباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا کردار رکن ممالک کو صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔ مسئلہ کشمیر او آئی سی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مسئلہ کشمیر کا دورہ اس لئے کیا تاکہ اپنی آنکھوں سے صورتحال دیکھ سکوں۔ انہوں نے بھارتی فوج کے مظالم سے متاثرہ افراد سے بھی ملاقات کی۔
اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کے سیکرٹری جنرل کا لائن آف کنٹرول کا دورہ انتہائی خوش آئند ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ او آئی سی کے تمام رکن ممالک کشمیر پر پاکستان کے اصولی اور دیرینہ موقف کی حمایت کرتے ہیں اور اس مسئلے پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی کا یہ دورہ ان دو صورتوں میں فائدہ مند ہو سکتا ہے ‘ ایک تو یہ کہ وہ کنٹرول لائن کے دوسری جانب جا کر خود جائزہ لیں تاکہ انہیں بھارتی شرارتوں اور مقبوضہ وادی میں اسکے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا بخوبی اندازہ ہو سکے اور دوسرے یہ کہ انہیں کنٹرول لائن کا دورہ کرکے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم روکنے اور کشمیر کے پائیدار حل کیلئے عالمی سطح پر اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ دسمبر 2020ء میں منعقد ہونیوالے وزراء خارجہ کے 47 ویں اجلاس میں او آئی سی نے اپنی منظور کی گئی قرارداد میں نہ صرف مسئلہ کشمیر کو دہرایا تھا بلکہ اسکے پائیدار حل کیلئے عزم کا بھی اعادہ کیا تھا مگر افسوس کہ تاحال اس قرارداد پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ممالک اقوام متحدہ میں بھارت کیخلاف قرارداد لا کر اس کا مکمل اقتصادی بائیکاٹ کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی آمادہ ہو جائیگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک بھارت کے ساتھ اپنی قومی خارجہ پالیسی پر بھی نظرثانی کریں اور اسکے ساتھ اقوام متحدہ میں یکجہت ہو کر مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کیلئے متحرک کردار ادا کریں تاکہ بھارت کو اس دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے مجبور کیا جا سکے پانچ اگست 2019ء سے پہلے والی مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرنے پر بھی آمادہ کیا جائے۔