گذشتہ آٹھ ،نوماہ سے وطن عزیز میں توڑ پھوڑ کا ایک عمل جاری ہے ۔ پہلے تو عمران خان نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا، کیئرٹیکر حکومت بنانے کا اعلان بھی کیا گیا، مگر کوئی اس منصب کو سنبھالنے کیلئے آگے نہ بڑھا۔اسی اثناء میں عدلیہ نے عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کے اقدام کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے دیا۔ ان دنوں اصل میں عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا زور و شور جاری تھا۔عمران خان نگران حکومت کے تحت نئے انتخابات کروانا چاہتے تھے۔مگر عدلیہ کے فیصلوں نے اس سارے سیاسی سیلاب کے آگے بند باندھ دیا،اور یوں اسمبلیاں ٹوٹنے سے بچ گئیں اور ملک میں اتحادی حکومت قائم ہوگئی ۔
اسکے ساتھ ہی ملک میں شدید بارشوں کا سلسلہ چل نکلا،پہاڑی ندی نالے بپھر گئے، سوات اور بلوچستان بری طرح غارت ہوگئے، پھر سیلابی پانی نے جنوبی پنجاب کا رخ کرلیا۔طوفانی بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہ لے رہا تھا، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سندھ کی نہریں اور دریا کناروں سے ابل پڑے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے تین چار ماہ میں ایک تہائی پاکستان سیلاب کی توڑ پھوڑ کی نذر ہوگیا۔ آفت اس قدر بڑی تھی کہ یو این او کے جنرل سیکرٹری کو پاکستان آنا پڑااور سیلاب زدگان کیلئے دنیا بھر سے امداد کی اپیلیں کرنا پڑیں۔ امریکہ میں مسلم تنظیم ’’ہیلپنگ ہینڈز‘‘ پاکستان میں جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ ڈاکٹر امجد ثاقب کی طرف سے ’’ اخوت ‘‘نے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاک فوج نے بھی ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں سرگرم کردار ادا کیااورانتہائی نامساعد حالات کے باعث اپنے اعلیٰ افسران اور جوانوں کی کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی آفت زدہ علاقوں کے دوروں پہ دورے کئے،دنیا کے متعدد ممالک کے دارالحکومتوں میں جاکر سیلاب زدگان کی فوری امداد کیلئے ہنگامی اپیلیں کیں۔
اگر کسی نے سیلاب زدہ افراد کی طرف توجہ نہیں کی تو وہ تحریک انصاف تھی جس کے لیڈرعمران خان کے سرپر سیاست کا بھوت سوار تھا۔وہ جلسوں پہ جلسے پھڑکاتے رہے اورفوری الیکشن کا مطالبہ دہراتے رہے۔ یہ عجب ستم ظریفی تھی کہ تین کروڑ پاکستانی سیلاب کی بپھری لہروں کی زد میں تھے ، کھلے آسمان تلے گرمی و حبس کی شدت کا سامنا کرتے رہے، بھوک اوربیماریوں نے انکی جانیں لینا شروع کردیں، مگر عمران خان ٹس سے مس ہونے کو تیار نہ تھے۔پھر عوامی پریشر کے سامنے مجبور ہوکر انہوں نے سیلاب زدگان کیلئے چندہ مہم شروع کی اور پانچ ارب کے فنڈز اکٹھاکرنے کا دعویٰ کیا۔عمران خان چندہ گیری کے ماہر ہیں مگر یہ چندہ آتا کہاں سے ہے اور جاتا کہاں ہے، اس سربستہ راز سے کوئی آگاہ نہیں ہوسکا۔ حتیٰ کہ ان پر سالہا سال فارن فنڈنگ کا کیس بھی چلا،مگر نہ فارن فنڈنگ کا کوئی حساب ملا، نہ سیلاب فنڈکے پانچ ارب کہیں خرچ ہوتے نظر آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیلاب نے جن صوبوں میں تباہی مچائی ، ان میں خیبرپختون خواہ اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہ مخلوط حکومت کے ساتھ شریک کار ہیں۔ اس پس منظر میں ان تین صوبوں میں تمام تر امدادی سرگرمیوں کی قیادت تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں اور عمران خان کو کرنا چاہئے تھی۔ گلگت بلتستان میں بھی سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی، یہاں بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔مگر امدادی سرگرمیوں میں صرف وفاقی حکومت کے شہبازشریف اورپاک فوج کے جوان ہی پیش پیش دکھائی دیئے۔اور عمران خان صاحب صرف الیکشن الیکشن کھیلتے رہے اور بالآخر فوری الیکشن کے شوق میں اپنے لانگ مارچ کے دوران گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے۔
اب قاتلانہ حملے کی بحث شروع ہوگئی ،اس کی ایف آئی آر درج کروانے کا تنازع چل نکلا۔تاہم تین کروڑ عوام جنہیں سیلاب نے روندڈالا تھا، وہ ان کی توجہ کا مرکز نہ بن سکے۔ اب سردیوں کا موسم شروع ہوچکا ہے، سیلاب زدگان بدستور کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ موسم گرما کی متعدی بیماریوں نے بچوں ،عورتوں،بوڑھوں کی جانیں نگل لیں، اب موسم سرما نمونیہ اورڈینگی پھیلانے کا باعث بن رہاہے۔عین اس وقت جب یہ تین کروڑ سیلاب زدگان اپنی زندگیاں بچانے کی فکر میں مبتلا ہیں، عمران خان کو دوصوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کا شوق چرایا ہے۔ انکے مخالفین توکہتے ہیں کہ بسم اللہ، سب سے پہلے صدرمملکت کا استعفیٰ پیش کرو، پھر سینیٹ سے استعفے دو، پھر قومی اسمبلی کی جن نشستوں سے استعفے دے چکے ہو، ان کی تنخواہیں اور مراعات لینا بند کرو،اس کے بعد صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا شوق پورا کرو۔ کہنے کو چودھری پرویز الٰہی آدھے منٹ میں اسمبلیاں توڑنے کو تیار ہیں، دوسری طرف وہ حکومتی مدت پوری کرنے کی باتیں کررہے ہیں، تاکہ وہ کچھ ڈیلیور کرکے عوام کو دکھاسکیں کہ تحریک انصاف حکومت نے عوام کو کیا دیا ہے ۔پشاور میں تو پی ٹی آئی کا اپنا وزیراعلیٰ ہے،مگر وہ بھی اسمبلیوں توڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ ایک طرف عمران خان نئے الیکشن کرواکر اسمبلیاں بنوانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف چلتی ہوئی اسمبلیوں کو توڑپھوڑ کررکھ دینا جاہتے ہیں۔ عوام یہ بھی سوچتے ہیں کہ اسمبلیوں کی تشکیل پر بھاری قومی سرمایہ خرچ ہوا ،انتخابی مہم میں لوگوں کا وقت بھی ضائع ہوا ، پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوری اور سیاسی عمل بہت بودا ثابت ہوا ہے۔ ایوب خان کا مارشل لاء لگنے تک سیاستدانوں نے جس طرح راتوں رات حکومتیں بدلیں، اس پر پنڈت نہر و نے پھبتی کسی تھی کہ وہ ایک دن اتنے پاجامے نہیں بدلتے،جتنی ایک سال میں پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ ایوب خان ،ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے گیارہ گیارہ سال حکومتیں کیں،جبکہ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو ڈیڑھ ،دو سال سے زیادہ برداشت نہیں کیا۔ بینظیراور نواز شریف ایک دوسرے سے بلیم گیم میں الجھتے رہے، بالآخرطویل محاذآرائی کے بعد انہوں نے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط کردیئے تو مشرف دور کے بعد ان دونوں پارٹیوں نے پانچ ،پانچ سال حکومت چلاکر دکھادی۔ تاہم عمران خان کسی میثاق جمہوریت کا حصہ نہیں بننا چاہتے، نہ وہ میثاق معیشت کرنے کیلئے جمہوری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات پر تیار نظر آتے ہیں۔نہ انہیں سیلاب زدگان کی کوئی فکر لاحق ہے،انکے سر پر ایک ہی جنون طاری ہے کہ اسمبلیاں توڑو اور نئے الیکشن کروائو تاکہ وہ دوتہائی اکثریت سے اپنی حکومت بناسکیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان دوسروں کی حکومتیں چلنے نہیں دیتے تو انکے انتخابی نتائج کو کون تسلیم کریگا۔ اور کون انہیں دو تہائی اکثریت کا ہتھوڑا چلانے دیگا۔ ویسے چار سالہ دور حکومت میں جس صفر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ، اسکے پیش نظر انہیں کون ووٹوں کے ہار پہنائے گا۔ عمران خان کو زعم ہے کہ انکے جلسے بڑے کامیاب ہوتے ہیں، مگر لانگ مارچ میں عوام نے جس طرح انہیں تنہا چھوڑا، اسکے بعد انہیں عوامی مقبولیت کا خناس ذہن سے نکال دینا چاہئے۔ کاش!عمران خان کو کوئی سمجھاسکے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تین کروڑ سیلاب زدگان کی بحالی کا ہے جنہیں سیلابی ریلوں نے توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے،عمران خان کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اسمبلیاں کام کرنے کیلئے بنتی ہیں، توڑنے کیلئے نہیں بنتیں۔ سیاست بچوں کا کھیل نہیں اور اسمبلیاں مٹی کے گھروندے نہیں۔ اس ملک کی قسمت جمہوریت کی کامیابی سے وابستہ ہے اور جمہوریت کی کامیابی عوامی مینڈیٹ کے احترام سے وابستہ ہے۔ عمران خان کو بھی اپنی سوچ بدلنی چاہئے۔