افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 


گزشتہ دو ہفتے دیدہ و دل کی ناصر کاظمی کی بیان کردہ کیفیت رہی ہے اس لیے کالم لکھنے کے لیے طبیعت قلم اٹھانے پر بھی آمادہ نہ ہو سکی۔ شائد ہماری فضائوں پر چھائی سموگ نے ہمارے دل و دماغ بھی سموگ سے بھر دئیے ہیں اور’ ’کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘ کی گومگو والی کیفیت میں بندہ کرنا کچھ چاہتا ہے اور کر کچھ اور ہی دیتا ہے۔ سسٹم کی بقاء و استحکام کے حوالے سے ملک کے سیاسی منظرنامے پر طاری مایوسی راندۂ درگاہ جمہور کے اچھے مستقبل کے لیے بھی کوئی نوید سناتی نظر نہیں آ رہی۔ انتہاء درجے کی غربت اور بے روزگاری کا عفریت انہی بے بس انسانوں کو اپنی خوراک بناتا ہے اور مہنگائی کے سونامی انہی بے وسیلہ انسانوں کے گھروں کے چولہے اور چراغ بجھاتے ہیں جو آسیب کو اوڑھ کر خدا وند کریم کی رحمتوں کی بارش کی آس میں خود بھی اور اپنے اہل خانہ کو بھی بھوک اور پیاس برداشت کرنے ہمت پیدا کرنے کی طفل تسلی دیتے نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے ہی بے بس و لاچار انسانوں اس کیفیت کی اپنے ایک شعر کے ذریعے یوں عکاسی کی ہے کہ
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر 
اداسی بال کھولے سو رہی ہے 
ارے صاحب! ہم تو جمہوری نظامِ حکومت کے اس لیے گن گاتے ہیں کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق یہ حکومت عوام کی ہوتی ہے جو عوام کے لیے عوام ہی کے ذریعے تشکیل پاتی ہے اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے تو یہ کہہ کر جمہوری نظام حکومت کا ڈنکا بجایا تھا کہ
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو 
مگر بھائی صاحب! اس نظام کی باگ سنبھالنے والے ہمارے ہر نوع کے قومی سیاسی قائدین نے اس نظام کے ثمرات اپنے سوا کبھی اس نظام سے منسوب جمہور (عوام الناس) تک پہنچنے دیئے ہیں؟ وہ بے چارے تو اپنے اپنے ممد وحین کے لیے آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے گلا پھاڑ نعرے لگاتے پھاوے ہو جاتے ہیں مگر پھر اپنے اچھے مستقبل سے مایوس ہو کر اس حسرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ
پیاس کہتی ہے کہ اب ریت نچوڑی جائے 
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا 
یہ راندۂ درگاہ عوام تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی یہ سوچ کر اپنے اچھے مستقبل کے لیے سلطانیٔ جمہور سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا 
کس کے روکے رکا ہے سویرا 
ان کے لیے گزشتہ 75 سال سے اندھیرا چھٹنے اور سویرا نمودار ہونے کے کوئی آثار نہیں بن پائے تو پھر وہ ’’کرمفرمائوں‘‘ سے یہ پوچھنے میں تو حق بجانب ہیں کہ
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں 
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی 
میرا ارادہ آج سیاسی افق پر جاری اتھل پتھل اور پاکستان کی سرزمین پر افغان فورسز کے گزشتہ روز کے سفاکانہ حملے پر اظہار خیال کا تھا مگر سموگ زدہ ماحول نے میرے قلم اٹھاتے ہی فیض احمد فیض کے اس شعر کی دھمال ڈالنا شروع کر دی کہ
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا 
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے 
بے بسی کے اس ماحول میں ساحر لدھیانوی بھی اپنے شعر کو ہتھوڑا بنا کر برساتے نظر آئے کہ
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے 
بھوک اطوار کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی 
ارے صاحب۔ کبھی ہم بھی داعیٔ انقلاب تھے اور اپنی اردو پنجابی شاعری میں انسانی بے توقیری کی بنیاد پر ابھرتے ، استوار ہوتے انقلاب کا تصور باندھا کرتے تھے۔ ایک تصور یہ تھا کہ
عزت ، عقل ، شرافت دا ہُن پَین لگّا جے کال 
بُھکّھے ننگے اَج پھر دے نیں ہر پاسے انسان 
پھر اردو زبان کے لقمے کے ساتھ یہ تصور یُوں اجاگر ہو جاتا کہ
جب تک اپنی قوم کے انساں تن سے ننگے پھرتے ہیں 
تب تک اپنی قوم کا ننگا پن بھی چُھپ نہ پائے گا 
تب تک اپنی قوم تمدن میں نہ آگے جائے گی 
جب تک ایک اِک فرد ہمارا پیٹ نہ بھر کے کھائے گا، 
ہم تو ان سارے انسانی دکھوں کا مداوا اور اپنے تصورات کی تعبیر سلطانیٔ جمہور میں ہی ڈھونڈتے رہے ہیں کہ اسے شرف انسانیت کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے مگر اس نظام کی بقاء و استحکام کے داعی سیاسی جمہوری قائدین نے اسے اپنی رکھیل بنا کر راندۂ درگاہ عوام کو اس سوچ کے ساتھ اپنی محرومیوں کے احساس کے اظہار کا راستہ دکھا دیا کہ
آپ تے پیویں بُکاّں شربت 
سانوں گُھٹ گُھٹ زہر پلاویں 
تو جناب! اپنی انائوں کے اسیر اور اپنے آنگنوں کو سیاہ و سفید دھن دولت سے بھرے رکھنے میں مشّاق ہمارے قومی سیاسی قائدین نے سموگ کے اثرات والی مایوسی و محرومی سے بے بس و لاچار عوام کو باہر نکلنے اور خودداری و خودمختاری کا چلن اختیار کرنے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا۔ بھئی آپ اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے لیے ایک دوسرے کے حلیف اور مخالف بنیں،حکومتیں بنائیں یا الٹائیں ، اسمبلیاں تحلیل یا آباد کریں، سسٹم کو اپنے یا کسی اور کے لیے مرغِ دست آموز بنائیں۔ آئینی دفعات اور شقوں کی اپنی من مرضی کی تاویلیں نکالیں۔ آئین و قانون کی حکمرانی کے جھنڈے اٹھائیں یا اکھاڑیں، یہ سب تو آپ کا اپنا کھیل تماشہ ہے، آپ کی اپنی مستیاں، خرمستیاں ہیں مگر آپ کے ہاتھوں راندۂِ درگاہ بنے اور زندہ درگور ہوئے عوام کدھر جائیں۔ آپ انہیں غربت کی لکیر کے نیچے دھکیلتے دھکیلتے سیدھا قبرستان کا راستہ دکھا رہے ہیں تاکہ راج کرے گا خالصہ تے باقی رہے نہ کو۔ مگر یاد رکھئے کہ قبرستانوں کے محافظ مجاور ہوتے ہیں، حاکم نہیں۔ تو کیا آپ زندہ انسانوں کو زندہ درگور کر کے مُردوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں؟ جناب! اس سے پہلے کہ آپ قبرستانوں کو زندہ درگور انسانوں سے بھرتے بھرتے وہاں اپنے لیے دو گز زمین سے بھی محروم ہو جائیں اور بہادر شاہ ظفر والی مایوسی اوڑھنا آپ کا مقدر بن جائے، اپنے عہد اقتدار میں دکھی انسانوں کی دعائیں لینے اور ان کے دلوں کو خوشیوں، آسودگیوں سے آراستہ کرنے کا کوئی اہتمام کر لیں۔ اب جاہ و حشمت کے اتھل پتھل ہونے کا نقارہ بجنے ہی والا ہے کیونکہ 

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

ای پیپر دی نیشن