شاہد حمید بھٹہ
شوگرملز مالکان کی خود غرضی اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے سے ملک میں اس وقت دو اہم فصلیں گندم اور گنا پیداواری کمی کا شکار ہیں۔حکومت کی غیر مؤثر حکمت عملی سے شوگر ملز مالکان نے شہ پا کر کرشنگ سیزن میں جان بوجھ کر تاخیر کی ہے۔ اس کے نتیجے میںگندم کی کاشت کے رقبے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس سے آئندہ ملک میں گندم کے بحران کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بروقت کاشت میں رکاوٹ کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کا ہونا بھی ہے۔ جس کے باعث رواں سال میں پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ کا ایک بڑا حصہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے ۔سندھ میں گرمی کے سیزن میں آ نے والے پے در پے سیلابوں نے کاشکاری کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ سندھ کا تقریباً 50 فیصد علاقہ ابھی تک گندم کیلئے قابلِ کاشت نہیں ہے اور اس سیلاب نے گندم کے کاشتکاروں کو برے طریقے سے متاثر کیا ہے۔ پنجاب میں بھی صورت حال کوئی اتنی اچھی حوصلہ افزا نہیں ہے پنجاب میں گنے کے کرشنگ سیزن میں تاخیر سے گندم تقریباً 15فیصد رقبے پر کم کاشت کی گئی ہے۔حکومت کی طرف سے گندم کی امدادی قیمت کے بروقت اعلان نہ ہونے اور ڈیزل کھاد نہری پانی کی کمی اور مہنگی بجلی کے باعث کسانوں نے گندم کی بجائے دیگر منافع دینے والی فصلوں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ جس سے گندم کی پیداوار میں کمی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔حکومت نے گندم کی اس بحرانی کیفیت سے نبٹنے کے لیے بیرون ممالک سے گندم امپورٹ کرنے کی جو پلاننگ کی ہے اس میں کروڑوں ڈالرز خرچ ہوں گے ۔ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گندم کی قیمت45سوروپے فی40کلوگرام میں پڑے گی جس سے نا صرف مہنگائی میں ہو شربا اضافہ ہو گا بلکہ غریب اور متوسط طبقے کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو جائے گا۔
ملک میںبڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں اس وقت گندم کا ریٹ 3000 فی 40کلوگرام ہے جبکہ عام شہری کو گندم کی روٹی 15سے 20روپے اور نان 20سے 30روپے تک مل رہا ہے امپورٹڈ گندم کے آ نے کے بعد جب آ ٹے اور میدے کی قیمتوں میں 40فیصد تک اضافہ ہو جائے گا اور اسی مناسبت سے روٹی اور نان کی قیمتوں میں ہونے والا ہوشربا اضافہ غریب عوام اور متوسط طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گا۔ حکومت اس وقت جو گندم درآمد کر رہی ہے حکومت کی ناقص حکمت عملی اور شوگر ملز مالکان کی طرف سے بروقت کرشنگ سیزن شروع نہ کرنے کی وجہ سے جو کاشتکار گنے کے بعد گندم کی فصل لگانا چاہتے تھے وہ اب کاشت کے سیزن میں تاخیر کے باعث گندم کاشت نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت گنے کی کاشت کے رقبہ پر گندم کاشت کرنے کے خواہشمند کاشکاروں کا راستہ روکا گیا ہے اور شوگر مالکان حکومت کی ملی بھگت سے اس پلاننگ میںکامیاب بھی ہوئے ہیں۔پاکستان میں اس وقت دو اہم فصلیں گندم اور گنا حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث شدید پیداواری کمی کا شکار ہیں ۔گنے کی فصل پہلے خشک سالی کا شکار ہوئی بعد ازاں طوفانی بارشوں اور پے در پے سیلابوں نے اسے شدید متاثر کیا اور گنے کی پیداوار بھی پچھلے سال کی نسبت رواں سال 40 فیصد کم ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے کسانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنیکے لیے 1800ارب کے کسان پیکچ پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا ہے۔چیک اینڈ بیلنس کا منظم نظام نہ ہونے کے باعث کھادوں کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے کا سلسلہ جاری ہے گندم کی کاشت کے بعد پہلے پانی کے ساتھ لگنے والی یوریا کھاد سرکاری قیمت 2150 کی بجائے 2800 میں فی بوری بلیک میں فروخت کی جارہی ہے اور حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی اگر کسانوں کو بروقت یوریا کھاد فراہم نہ کی گئی تو گندم کی فصل مزید متاثر ہو گی۔حکومتی سطح پر اگر اس بحرانی کیفیت سے نبٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آ نے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔