جس شخصیت میں علم کے ساتھ ساتھ حکمت و دانش اور ذاہد و تقوٰی کا نور بھی ضوفشاں ہو اس کی باتیں کتابی ہونے کے علاوہ الہامی و ربّانی ہوتی ہیں۔ علم صرف کتابوں سے نہیں بزرگوں سے بھی ملتا ھے الفاظ و حروف انفارمیشن تو دے سکتے ہیں منزل آشنا نہیں کرسکتے عقل خبر نواز اور نظر محبوب شناس ہوتی ھے ،دانائے راز بھی فرما گئے
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
مجھے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں ضلع جہلم کے ایک ایسے روحانی بزرگ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ھے جن سے مل کر قرون ا±ولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ھے مادیت اور مالی حرص کے اس دور میں طمع و لالچ سے کوسوں دور یہ درویش بابا جی عرفان الحق نہ صرف لوگوں کا روحانی علاج کرتے ہیں بلکہ علم لدّنی اور باطنی توجہ سے قلب و نگاہ کو پاک بھی کرتے ہیں۔ ذاویہ کے حامل بابا اشفاق احمد اور محترمہ بانو قدسیہ جن کے قدموں میں بیٹھ کر علم و حکمت کی نفع بخش باتیں سیکھتے تھے۔ قاسم علی شاہ جن کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں اور سابق وزیر اعظم عمران خان جن سے علاج اور روحانی ہدایات لیتے رہے وہ بابا جی عرفان الحق آج بھی ہر آنے والے کے ظرف کے مطابق اس کو نوازتے ہیں ۔بابا جی اپنے ڈیرے پر آنے والوں کی علمی، فکری اور روحانی تربیت اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کے اندر امید کی شمع روشن کر دیتے ہیں یاس و قنو طیت کے اس دور میں جس در سے امید و رجا کی روشنی مل جائے۔ وہ ڈیرہ یونیورسٹیوں سے بڑا دانش کدہ ہوتا ھے۔ بابا جی دین بیزار لوگوں میں اسلام کی محبت اور پاکستان کے مستقبل سے مایوس لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ ملک مدینہ ثانی ھے جو صرف امت نہیں اقوام عالم کی قیادت کرے گا فرماتے ہیں ماناکہ پاکستان مختلف امراض کا شکار ھے مگر یہ کینسر نہیں جو لاعلاج ہو بعض ٹی وی چینلز دن رات مایوسی پھیلاتے ہیں جو شیطان کا شیوہ ھے کیونکہ ابلیس کا معنیٰ ہی مایوسی ھے اور اللہ کریم فرماتا ھے میری رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا باباجی امید، حوصلہ اور قومی و ملی غیرت و حمیت کی جوت جگانے کے ماہر ہیں۔
اس دور کا پیر اور صوفی بھی زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن کے مصداق مال و دولت کی طمع میں حواس باختہ ہو چکا ھے حقیقی صوفی تو محلات کا سکندر نہیں مزاج کا قلندر ہوتا ھے خشک ٹکڑے اس کا نوالہ اور استغناء و بے نیازی اس کا حوالہ ہوتے ہیں دہلیزِ الوہیت پر سجدہ ریزیاں اس کا نشان اور مخلوقِ خدا میں آسانیاں بانٹنا اس کی پہچان ہوتا ھے۔ معاشرے میں جن لوگوں کو لفظوں کی کڑواہٹ اور لہجوں کی تلخی نے توڑ کے رکھ دیا ہو صوفی ان کے لئے میٹھے بول بولتا ھے ان کو کامیاب زندگی گذارنے کی نئی لگن بخشتا ھے حوصلہ ہارے ہوئے لوگوں کو آگے بڑھنے کا جوش اور قوم و ملت کے لئے کچھ کر گذرنے کے لئے تب و تاب جاودانہ اور ہمت مردانہ سکھاتا ھے صوفی اور درویش چونکہ خود ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کا پیکر ہوتا ھے وہ خاک نشینوں کو عرش نشینی کی راہ دکھاتا ھے جوہر انسانی کو مصفیٰ کرکے اپنے حلقہ بگوشوں کو شاہینِ شاہِ لولاک بناتا ھے۔باباجی عرفان الحق فرماتے ہیں کہ تصوف کے راستے کا مسافر دوسروں کے اعمال بد پر نگاہ نہیں رکھتا کیونکہ ایسا کرنے والا کبھی منزل آشنا نہیں ہو سکتا ایک انسان کو کس نے اختیار دیا ھے کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں کی کھوج لگاتا رہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور عرض کی کہ ہم تبلیغ کا کام کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا جس نفس کو ابھی خود اصلاح کی ضرورت ہو وہ دوسروں کےعیوب پر کیسے نگاہ ڈال سکتا ھے اللہ اور اس کے حبیب کریم نے اس راستے پر چلنے والے کے لئے ایک قانون دیا ھے کہ جو تجھے اپنے لئے پسند ہے وہی دوسروں کے لئے پسند کر۔ صوفی کی زندگی مرغابی کی طرح ھے مرغابی جو پانی میں رہتی ھے پانی میں کھاتی ھے اور پانی میں ہی انڈے دیتی ھے پھر ذرا سا معاملہ گڑ بڑ ہو تو ا±ڑ جاتی ھے مگر اس کے پَر گیلے نہیں ہوتے۔ صوفی دنیا میں رہتا ھے لیکن اس دنیا میں دل نہیں لگاتا اگروہ خواہشات کو معبود بنائے گا تو اس کے روحانی پَر گیلے ہو جائیں گے وہ معرفت کے آسمانوں پر ا±ڑنے کے قابل نہیں رہے گا۔بابا جی کی دانشمندانہ باتیں صرف اثر انگیز ہی نہیں ہوتیں بلکہ سننے والے کے اندر علم، عمل اور اخلاص کا جذبہ بیدار کرتی ہیں۔ باباجی رومی کشمیر میاں محمد بخش ؒ کا ایک پنجابی شعر
ساری دیہاڑی وٹّے کھاندی اے
تے مِٹھے بیر کھواندی اے
بابا جی اس شعر کی بڑی خوبصورت تشریح کرتے ہیں کہ صوفی بیری کے درخت کی طرح نفع بخش ہوتا ھے بیری خود پتھر کھاتی ھے مگر آپ کو میٹھے بیر کھلاتی ھے۔ بیری کی مثال اس وجہ سے بھی دی ھے کہ کوہ طور پر اللہ پاک کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو آواز آئی تو بیری کے درخت سے ہی آئی تھی اور شب معراج سدرة المنتیٰ پرھمارے پیارے آقا کے دیدار کے لئے فرشتے جس درخت پر جمع ہوئے وہ بھی بیری نما درخت تھا۔باباجی لوگوں کا جسمانی اور روحانی علاج بھی کرتے ہیں وہ د±کھی جسموں کے مسیحا اور بیمار روحوں کے معالج ہیں لا علاج مریضوں میں شفا بانٹنا ان کا شیوہ ھے ۔ وہ ایک نگاہِ قلندرانہ سے ہی مرض کی تشخیص اور علاج تجویز کر دیتے ہیں ان کا بتایا ہوا نسخہ ایک طرف قرآن و سنت کے ماخذ و مرجع کے طور پر شریعت کے نور سے مزین تو دوسری طرف سائنسی توجیہ و تعبیر کا آئینہ دار ہوتا ھے الغرض عصر حاضر میں بابا جی کی ذات وہ دانشکدہ ھے جو جاہلوں کو علم، مایوس لوگوں کو امید اور تشکیک کا شکار لوگوں کو یقین کی طاقت بخشتا ھے۔ امریکہ اور مغرب کی دنیا کائنات کو مسخر کرکے انسان کے لئے مادی ترقی اور جسمانی آسانی کے نئے سے نئے طریقے ایجاد کر رہی ھے سائنسی تحقیقات کا مشن انسان کی جسمانی امراض کا علاج، دنیاوی سہولیات اور ذہنی تعیشات کے سارے سامان مہیا کرنا ھے مگر انسان کے باطن میں بڑھتے ہوئے اندھیرے اور روحانی امراض کا علاج کوئی نہیں کر رہا اور یہ کام کوئی سانئس دان، پروفیسر یا ڈاکٹر کر بھی نہیں سکتا ایسا کام صرف اور صرف عرفان الحق صاحبِ بصیرت درویش اور مومنانہ فراست کا حامل بابا ہی کر سکتا ھے ۔ رسول عربی کے شہباز کا کام ھے میکدہ عرفان پر آنے والوں کی روحوں کو معرفت کا نور بھی ملتا ھے اور قلبی و ذہنی سکون بھی ملتا ھے اس چراغِ عشق کی ضیا پاشیوں سے زمانہ م±نور ہو رہا ھے آپ بھی آکر قلوب و اذہان کی ویران وادیوں کو محبت سے آباد کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار اس مردِ کامل کا دیدار ضرور کریں۔