آرمی چیف جنرل عاصم منیر امریکہ کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کو ہر جگہ بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور اس وقت پاکستان میں اور ملک سے باہر کچھ چیزیں ایسی ضرور ہو رہی ہیں جو ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے اس دورے سے جڑی ہوئی ہیں۔ چونکہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایسی جگہ ہے جہاں اس کی اہمیت سے دنیا کا کوئی بھی بڑا اور طاقتور ملک انکار نہیں کر سکتا۔ عالمی طاقتوں کو ہر حال پاکستان کی ضرورت رہتی ہے۔ چین ہو یا روس یا پھر امریکہ یا کوئی اور خطے میں سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور سب اپنے اپنے مفادات کو حاصل کرنے اور اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے کسی نہ کسی صورت ہر وقت پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت و اہمیت کا بہتر انداز میں فائدہ اٹھانا ہے۔ عالمی طاقتوں اور خطے کے پاور پلیئرز کے ساتھ ایک ہی سطح پر تعلقات قائم کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ ان دنوں بھی اگر دیکھا جائے تو خطے میں کئی غیر معمولی چیزیں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جیسا کہ چین اور امریکہ میں رابطے بہتر ہوئے ہیں کیونکہ نومبر میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سان فرانسسکو کے قریب ایک تاریخی مقام پر ہونے والی اس ملاقات شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ چین کے سرکاری میڈیا نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ یہ ملاقات غیر معمولی ہے کیونکہ خطے میں ایران کا کردار بھی بہت اہم ہے اور امریکہ ہر وقت ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرتا رہتا ہے۔ امریکہ چین سے بھی یہی توقع کرتا ہے کہ وہ ایران کے معاملے میں اس کی حمایت کرے۔ پاکستان اور چین کے دیرینہ اور مضبوط تعلقات کو دیکھتے ہوئے امریکہ کسی بھی طرح پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ روس اور امریکہ کے صدور ملیں یا پھر ملاقات چین اور امریکہ کے صدر کی ہو خطے میں پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ بھارت کی کارروائیوں کو دیکھا جائے اور افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں اور اس معاملے میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حوالے سے افغان حکومت کی سرپرستی کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اس دورے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے سوئے ہوئے افراد بھی اچانک جاگ گے ہیں اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے اور یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بحثیت قوم ہر اہم موقع پر ملکی مفاد کے بجائے ذاتی و سیاسی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ نو مئی کو پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والے یا اس بغاوت کا حصہ بننے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حرکتوں سے وہ بچ سکتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ عین اس وقت جب افواج پاکستان کے سربراہ امریکہ کے دورے پر ہیں اور یہاں ان سازشی عناصر کو بولنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے نو مئی کو پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملہ کیا، شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا، معصوم ذہنوں کو تخریب کاری پر بھڑکایا، ملک میں نفرت پھیلائی، اداروں کے بارے جھوٹ پھیلایا،
آج وہ اپنے کیے کی سزا بھگت رہے تو ایک مرتبہ پھر بنیادی انسانی حقوق کا جھوٹا بیانیہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ آرمی چیف اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں جب پاکستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گرد بدامنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ گذشتہ روز بھی سکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف کارروائیوں کے دوران ستائیس دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے جب کہ اس دوران پاک فوج کے تیئیس جوان شہید ہوئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں گیارہ اور بارہ دسمبر کی درمیانی رات دہشتگردوں کی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں جس پر ڈی آئی خان کے علاقے درازندہ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس کے دوران سترہ دہشتگرد ہلاک کیے گئے۔ گذشتہ روز صبح چھ دہشتگردوں نے دارابن میں سکیورٹی فورس کی پوسٹ پر حملہ کیا جس دوران سکیورٹی فورسز نے چوکی پر دہشتگردوں کے داخلے کی کوشش ناکام بنا دی تاہم اس کے بعد دہشتگردوں نے بارود سے بھری گاڑی کو چوکی سے ٹکرا دیا جس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں سے عمارت گر گئی اور متعدد اموات ہوئیں۔ علاقے میں تمام چھ دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے جب کہ اس دوران تیئیس بہادر سپاہیوں نے شہادت کو گلے لگایا۔ کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر آپریشن میں دہشتگردوں کے ٹھکانے کو تلاش کیا گیا جب کہ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد دو بہادر جوان شہید ہوئے۔ ہلاک دہشتگرد سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشتگردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھے اور ہلاک دہشتگرد معصوم شہریوں کے قتل میں بھی سرگرم تھے، کارروائیوں کے دوران اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔ علاقے میں موجود دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشنز کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کو اس وقت ہر لحاظ سے استحکام کی ضرورت ہے، پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، پاکستان کو معاشی استحکام کی ضرورت ہے، اب ملک کے مخصوص حصوں میں دہشتگردوں نے کارروائیاں شروع کی ہیں تو مخصوص سیاسی حلقے اسے منفی انداز میں دیکھ رہے ہیں حالانکہ افواج پاکستان کے بہادر افسران اور جوان وطن عزیز کے دفاع کی خاطر قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن لوگوں کو انتخابات کی پڑی ہوئی ہے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی انتخابات کو ایک بڑا مسئلہ سمجھتا ہوں کیونکہ ہر عام انتخابات کے بعد پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ گوکہ اس وقت نگران حکومت ہے اور جب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ملک استحکام کی طرف ہے۔ سٹاک ایکسچینج بہتر ہو رہی ہے، ڈالر کو قابو کرنے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، کیا ضمانت ہے کہ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے اور وہ معاشی حوالے سے ہونے والے فیصلوں پر قائم رہے، نگران حکومت کے فیصلوں کو اہمیت دے اور اسے جاری رکھے۔ کیا نئی حکومت معاشی بحران کے پائیدار حل کو سامنے رکھتے ہوئے بے رحمانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو گی۔ کیونکہ عام انتخابات کے نتیجے میں مخلوط حکومت ہی قائم ہونی ہے اور ایک مخلوط حکومت کا نتیجہ ہم ابھی تازہ تازہ بھگت چکے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے اندرونی حالات اور خطے میں عالمی طاقتوں کے کھیل کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ دورہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
آخر میں ناز خیالوی کا کلام
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیران ہوں
میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
اصل میں جو مل گیا ، لا الہ کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
فلسفی کو بحث میں اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
چھپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
بس تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو ‘‘مہینوال’’ تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو