محمد ریاض اختر
riazakhtar.nw@gmail.com
10 دسمبر 2023 کی صبح وہی ہواجس کی امید کی جارہی ہے یہ دن ہندوستان کے سیاہ کارناموں میں تلخ باب کی حیثیت سے یاد رکھاجائیگا 5 اگست 2019 کو وزیراعظم نریندر مودی نے یک جنش قلم مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے آرٹیکل 370 کو نافذ کردیا۔ دنیا بھر میں آزادی پسندوں نے مزاحمت ' مظاہرے اور بھارتی سرکار پر سخت تنقید کی مگر سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے دعویداروں کے ماتھے پر شکن تک نہ آیا… جب معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو امید بندھ گئی کہ یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا تاہم متعصب سپریم کورٹ نے وہی کچھ کیا جو ''معزز عدلیہ'' بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے کرچکی تھی۔ گیارہ دسمبر کو ''مودی کورٹ'' نے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی خلاف ورزی اور بے توقیری کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو جائز قرار دیا۔ دنیا کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کا تعصب زدہ فیصلہ پر جہاں عالم میں تنقید کی جارہی ہے۔ یہ کیسا فیصلہ ہے جس کے سنانے سے قبل مقبوضہ کشمیر کی لیڈر شپ کو نظر اندازی کے دائرے میں رکھا گیا۔ پاکستان، مقبوضہ کشمیر ' آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں حریت پسندوں حلقوں نے فیصلہ مسترد کرتے ہوئے اسے انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔ شوپیاں ( مقبوضہ کشمیر ) کے دانشور، تجزیہ نگار ڈاکٹر ولید رسول نے بتایا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا 400صفحات پر مشتمل فیصلہ انصاف کا عدالتی قتل ہے۔ چیف جسٹس چندر چوڑھ کے فیصلے سے بی جے پی اور انتہا پسند ہندو خوش ہوگئے۔ چیف جسٹس نے اپنے منصب کی توہین کی، انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ہندو توا کے ترجمان ہیں، بھارت کے کسی ادارے سے انصاف کی توقع نہیں۔ بھارت آئے روز مقبوضہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کر رہاہے،مسلم کش کے بعد اب کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، بھارت کسی عالمی قانون و تقاضے کو خاطر میں نہیں لاتا۔بھارتی سپریم کورٹ سے کشمیریوں نے ایک امید لگائی تھی جس امید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے ثابت کیا کہ بھارت کا ہر ادارہ ہندوتوا پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہر ادارے کا دوہرا معیار ہے، بھارتی حکومت مقبوضہ وادی میں تسلط کو جاری رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے، 1947 سے آج تک کشمیری آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہیں۔ کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور آزادی کی سحر تک یہ جدوجہد جاری و ساری رہے گی… محمود احمد ساغر، کنونئیر کل جماعتی حریت کانفرنس ( آزاد کشمیر شاخ ) نے کہا کہ بھارت نے اپنے طور پر مسئلہ ختم کر دیا ہے لیکن پاکستان اور کشمیری حصول آزادی تک یہ مسئلہ ختم نہیں کریں گے ،کشمیری عوام بھارت کا 5 اگست 2019 کا یکطرفہ اقدام مسترد کر چکے ہیں، ریاست پاکستان بھی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی سے متعلق درخواستیں مسترد کرنے کا بھارتی سپریم کورٹ فیصلہ مسترد کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی خاموشی قابل تشویش ہے۔ یو این او بھارت کے یک طرفہ اقدامات کا فوری نوٹس لے اور بھارت کی سخت باز پرس ہونی چاہیے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی مرضی و منشا کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا ہے۔شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ چوراسی ہزار مربع میل پر پھیلی ریاست جموں و کشمیر ناقابل تقسیم وحدت ہے جس کی وارث ریاستی عوام ہیں۔ ہندوستان جب راجواڑوں میں بٹا تھا تب بھی ریاست جموں و کشمیر ایک وحدت تھی۔ریاست جموں وکشمیر تاریخی طور پر کبھی بھی ہندوستان کا جغرافیائی حصہ نہیں رہا۔ موجودہ آزادکشمیر کی حکومت، اسمبلی کے اندراور باہر تمام سیاسی جماعتیں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ بھارت کی یہ توسیع پسندانہ سوچ خطے میں امن کو درپیش خطرات میں اضافہ کر رہی ہے، بھارتی آئین کی مقبوضہ کشمیر پر بالادستی کسی طور تسلیم نہیں کی جا ئے گی… بھارتی امور کے ماہراصغر علی شاد 1973 سے 1982 تک انڈین جیلوں میں قید رہے انہوں نے زیادہ تر قید کا حصہ جے پور، جودھپور ، الور، رائے سنگھ نگر، بیکانیر اور دہلی جیل گزاراانکا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ وقت گزاری کے کچھ نہیں۔ پاکستان اور چین کے ردعمل نے بھارتی خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔بھارتی عدلیہ نے ہندوتوا نظریے کے سامنے سر جھکا کر بھارتی حکومت کے غیر آئینی تسلط کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔رائے شماری کے علاو ہ ریاستی عوام کو کوئی حل قبول نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے یکطرفہ اور تعصب سے بھرپور فیصلہ کی وجہ سے اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل سے منظورشدہ قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑسکتا، بھارت اس وہم سے باہر نکل آئے، مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قرادادوں کی روشنی میں ہی حل ہوگا، خطہ میں بھارت انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری تسلط کو دوام بخشنے کے لیے اپنا آخری حربہ بھی استعمال کرچکا، بھارت کو اب منہ کی کھانا پڑے گی۔بھارت کی پارلیمانی حقیقت سیکولر ازم پر کھڑی ہے لیکن بھارتی حکومت باالعموم مسلمان اور بالخصوص ریاستی تشخص کو مٹانے، جبری تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے اندھا دھند اقدامات اٹھارہی ہے…سابق چیف جسٹس آف آزادکشمیر جسٹس سید منظور حسین گیلانی نے بتایا کہ ہندوستان کی عدالت فیصلوں میں اچھی شہرت رکھتی تھی لیکن حالیہ فیصلے نے اسکا چہرہ داغدار ہوگیا۔ پہلے بھارت سرکار اور پارلیمنٹ کشمیروں کی فریق تھی اب عدلیہ بھی اس صف میں شامل ہوگئی۔دیکھا جائے تو ہر بھارتی شہری تنازعہ کشمیر کا فریق ہے ۔ پاکستان کو کشمیروں کی سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنی چاہیے…پونچھ مقبوضہ کشمیر کی ممتاز علمی شخصیت مرحوم تحسین جعفری کے صاحب زادے ڈاکٹر پروفیسر مقصود جعفری نے بتایا کہ فیصلے کے بعد اب حکومت پاکستان اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرے اور یہاں سے دانشوروں اور قلم کاروں کے وفود بھیجے جو بڑے بڑے شہروں میں مظاہروں کی قیادت کریں۔کشمیر کاز کیلئے تا زیست وقف ضولادار شیر باز خان مرحوم کے صاحب زادے چوہدری رخسار ایوب نے کہا کہ آزاد کشمیر کی جماعتیں کرسی کی کھینچاتانی چھوڑ کر کشمیر کاز کیلئے سردار عتیق کی قیادت میں ایک پیج پر آجائیں ،ہم نے یہ موقع ضائع کردیا تو کشمیری اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اقوام متحدہ کو اپنی منظور شدہ قراردادوں کی خلاف ورزی کا نوٹس لینا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ مودی حکومت کی خواہش کے مطابق جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، سابق بھارتی حکومتوں کے اقدامات اور اکثریتی کشمیریوں کی خواہشات اور حقائق کے برعکس سنایا ہے۔مقبوضہ کشمیر یبن الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے لہذا بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے متنازع علاقے کے تعین کا کوئی حق نہیں ہے۔کشمیری عوام پہلے ہی بھارت کا 5 اگست 2019 کا یکطرفہ اقدام مسترد کر چکے ہیںجسکی خطے کے باسیوں کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔