کشمیر کی خصوصی حیثیت کو زندہ دفن کرنے کی کوشش

  وقار عباسی 
waqar051@ gmail.com
بھارت کی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے  کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کو آئین کی عارضی شق قر ار دے کر بھارتی جنتاپارٹی کی ہٹ دھرمی کی توثیق کردی ہے کہ 'جموں و کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں دو قدم آگے جاکر الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ 30 ستمبر 2024 ء تک اس ریاست میں انتخابات کا انعقاد کروائے۔بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کا یہ فیصلہ بھی بی جے پی سرکارکی آئندہ کی انتخابی شعبدہ بازی کا حصہ ہے جسے وہ الیکشن مہم میں استعمال کرے گا گزشتہ روز  آرٹیکل 370 کے خاتمے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے دوران بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی انڈیا کی دیگر ریاستوں سے علیحدہ کوئی اندرونی خودمختاری نہیں ہے۔کیس کی سماعت انڈین سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کی اس کیس کا فیصلہ چار سال تک محفوظ رہنے کے بعد گزشتہ روز سنایا گیا ہے کیس کا  فیصلہ سناتے ہوئے  چیف جسٹس نے کہا کہ 'جموں و کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 1 اور 370 سے واضح ہے۔'پانچ اگست 2019 کو انڈیا میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔پارلیمان سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔اس سال اگست اور ستمبر کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے ہنگامی بنیادوں پر سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اب جبکہ بینچ کے ایک جج جسٹس ایس کے کول دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور 15 دسمبر سے سپریم کورٹ میں سرمائی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں اس لیے عدالت نے حتمی فیصلہ 11 دسمبر کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔بھارت کی سپریم کورٹ میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت اس کیس کا جو پہلو سب سے اہم رہا وہ یہ ہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے مودی حکومت کے اس بیان حلفی کو بحث سے خارج کر دیا تھا جس کے مطابق 'دفعہ 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور امن اور ترقی کا دور شروع ہو گیا ہے۔'مودی حکومت کے بیان حلفی کے جواب میں عدالت نے کہا تھا کہ 'دفعہ 370 کو ہٹانے کے آئینی اور قانونی جواز پر بحث ہو گی نہ کہ اس کے سیاسی نتائج پرکشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان، انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل ان آئینی درخواستوں میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا کشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمان کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ایک سال قبل ہی کشمیر میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے حمایت واپس لے کر حکومت گرا دی تھی اور جموں کشمیر میں براہ راست صدارتی راج نافذ ہو گیا تھا۔
مودی حکومت کے 5 اگست  2019ء کے پارلیمانی فیصلے کو چیلنج کرنے والے سبھی درخواست گزاروں نے یہ آئینی نقطہ  اٹھایا تھا کہ کیا 'کسی ریاست کا درجہ گھٹا کر اسے مرکزی انتظام والا خطہ قرار دینے اور اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اختیار اس ریاست کا ہے یا پارلیمنٹ کا؟انڈین حکومت نے ان قانونی نکات کے جواب میں  استدلال پیش کیا کہ جب ریاست میں منتخب حکومت کے بجائے صدارتی راج نافذ ہو تو پارلیمنٹ ریاست کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لے سکتی ہے۔دفعہ 370 جب کشمیر کے پہلے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو 1953میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے معذول کیا اور اس عمل سے کشمیر میں افراتفری کا عالم پیدا ہوا  تھا جس کے خاتمے کے لیے جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی آرڈر کے ذریعہ انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا تھا۔اس دفعہ کے تحت جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین، ٹیکس نظام تھا اور یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں۔ انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھا۔حالانکہ دیگر انڈین ریاستوں کی طرح اب جموں کشمیر کا بھی باقاعدہ گورنر اور وزیراعلیٰ تھا لیکن ایک طرح کی نیم خودمختاری تھی، جسے ہٹانے کا عزم بی جے پی نے کئی دہائیاں قبل کر لیا تھا۔سال 2014 میں بی جے پی کے مرکزی رہنما نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے تو بی جے پی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ دفعہ 370 ختم کر کے 'مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے ،سال 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے صرف دو ماہ بعد پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے 'جموں کشمیر تنظیم نو' کے عنوان سے بل پیش کیا جو اکثریت سے پاس ہو گیا۔اس بل کے مطابق جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کر کے اسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا جبکہ جموں کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا،جبکہ اس اعلان سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں اور سبھی سیاسی لیڈروں کو قید کر دیا گیا۔یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہنے کے بعد زندگی بحال تو ہوئی تاہم جموں کشمیر کا آئین منسوخ کردیا گیا  اور وفاق کے 800 سے زیادہ نئے قوانین کشمیر میں نافذ کردئیے گئے ان سب اقدامات سے چند سال قبل ہی علیحدگی پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا جبکہ انڈیا نواز رہنماؤں کو بھی سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں نظر بند کیا گیا تھا۔آرٹیکل 370 کے ختم کرنے کے کیس میں 16 روز تک بھارت کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی  اس سماعت کے دوران 1947 میں جموں کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کی شرائط سے متعلق پیچیدہ قانونی پہلووں پر بحث ہوئی، لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندراچود نے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں  آرٹیکل 370 کی حیثیت کو  عارضی قرار دیا اور اس صدارتی آرڈیننس کو جائز بتایا جس کا واضح مطلب خودمختاری کو  زندہ درگور کرنے کی کوشش تھی۔ 
1947 س  میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان کے وجود میں آتے ہی جموں کشمیر کا مسئلہ جہاں دو ملکوں کے بیچ متنازعہ بن گیا، وہیں کشمیر اور انڈیا کے درمیان تعلقات کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا۔اسوقت کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ انڈیا اورپاکستان دونوں سے آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کے قبائیلی حملہ آوروں کی دراندازی کے بعد ہری سنگھ نے انڈیا سے فوجی مدد مانگی جسکے عوض انھوں نے انڈیا کے ساتھ الحاق کیا۔الحاق کے تحت انڈیا کو جموں کشمیر میں ڈیفینس، کمیونکیشن اور کرنسی کے بارے میں قانون سازی کا اختیار تھا باقی سبھی شعبوں میں جموں کشمیر خودمختار تھا۔اسی معاہدہ کی ذیل میں انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا، جس کا مقصد مہاراجہ کے الحاق کو مستقل کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جموں کشمیر کا اپنا آئین ہوگا اور علیٰحدہ پرچم ہوگا جو انڈین پرچم کے ہمراہ لہرایا جائے گا اور جموں کشمیر کے مستقبل باشندے ہی یہاں زمین کی ملکیت اور نوکریوں کے اہل ہونگے۔انڈیا میں ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی نے دہائیوں سے اس آئینی ارینجمنٹ کی مخالفت کی تھی اور عزم کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی جموں کشمیر کو مکمل طور پر انڈیا کے وفاقی نظام میں ضم کیا جائے گا۔
سال 2019 میں بی جے پی دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی تواسی سال پانچ اگست کے روز پارلیمنٹ میں جموں کشمیر تنظیم نو بل کو منظور کیا گیا جسکی رو سے آرٹیکل 370  بظاہرختم ہوگیا، اور جموں کشمیر انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح اس کا حصہ بن گیا۔ اس بل کے تحت جموں کشمیر سے لداخ کو الگ کرکے دونوں کو مرکز کے انتظام والے دو خطوں میں بدل دیا گیا۔اس تبدیلی پر چین اور پاکستان نے سخت ردعمل دیا بھارت کے بعض ہندنواز لیڈروں اور رضاکاروں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جسکاگزشتہ روز فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ 
 کشمیر کے مسئلہ پر انڈین موقف کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کی پوری سیاست آرٹیکل 370 کی حفاظت کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے ہی کشمیریوں میں علیحدگی پسند جذبات پیدا ہوئے اس کیس میں کئی درخواست گزاروں میں شامل نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان اور سابق جج حسنین مسعودی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے فیصلے سے قبل ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پرامید ہیں، لیکن اگر عدالت میں ہم ہار بھی گئے تو ہم سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، شمال مشرقی ریاستوں کو جو کچھ ملا ہے وہ سیاسی جدوجہد سے ملا ہے عدالت سے نہیں ملا۔دفعہ 370 ہٹانے کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہو گی اور صرف چھ ماہ کے اندر پچاس ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کشمیری بھی انڈیا کے شانہ بہ شانہ ترقی کریں گے۔لیکن طویل قدغنوں کے بعد جب زندگی بحال ہو گئی تو سرکاری تعیناتیوں سے متعلق ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آنا شروع ہوگئے اورحکومت کو کم از کم ایسی چار فہرستوں کو کالعدم کرنا پڑا جن میں کرپشن اور چور دروازے سے تعیناتی کے انکشافات ہوئے تھے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے جس گلوبل انویسٹر سَمِٹ کو نومبر 2019 میں کرنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن