9مئی والوں کے لیے فوجی عدالتیں

وہ جیلوں میں ہیں تو دھاڑ رہے ہیں، اگر آزاد ہیں تو پارٹیوں کی ادل بدل کرکے معصوم فرشتے بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ابھینندن نے ہمارے ایک لڑاکا طیارے پر جھپٹا مارا تو ایک لمحہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ ہمارے ایک دلیر ہواباز نے ایک میزائل داغا اور ابھینندن کا جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہوکر فضا میں بکھر گیا۔ فوج پر جارحانہ حملہ پر تو دنیا کا کوئی قانون رعایت برتنے کے حق میں نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کسی امریکی فوجی پر رائفل تانی یا نہ تانی مگر اسے مجرم تصور کیا گیا اور وہ آج تک امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کا افسر کلبھوشن یادیو جیسے ہی غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوا، اسے فوجی عدالت نے فوری طور پر سزا سنادی ۔ 
مگر طرفہ تماشا ہے کہ 9مئی کو جن لوگوں نے فوجی تنصیبات کو روندا، ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ ان کا مقدمہ کون سنے گا، کون انھیں سزائیں سنائے گا۔ مہینوں پہ مہینے گزرتے چلے جارہے ہیں، تحریک ِ انصاف والے نہیں چاہتے کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو جبکہ فوجی ہائی کمان اعلان کرچکی ہے کہ 9 مئی 2023ء کے بیشتر ملزموں کا احتساب فوجی عدالتیں کریں گی۔ ہماری عدلیہ بھی ان مجرموں کے لیے نرم گوشہ ظاہر کررہی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ 9 مئی کے مجرموں کو فوجی عدالتیں بھگتنا پڑیں۔ سوشل میڈیا پر فوجی عدالتو ں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ بھٹو نے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طورپر اقتدار سنبھالا تھا تو اپنے سیاسی مخالفین کو فوجی عدالتوں میں گھسیٹا۔ ان عدالتوں میں صرف ملزموں کو پیش کیا جاتا، نہ کوئی وکیل استغاثہ، نہ کوئی وکیل صفائی۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، حسین نقی جیسے جید صحافیوں کو تیسری پیشی پر کڑی سزائیں سنائی دی گئی تھیں۔ یہ تو تھا ایک مبینہ طور پر ایک جمہوری حکمران کا سخت گیر رویہ۔ دوسری طرف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو کسی مخالفانہ پراپیگنڈے کی پروا کیے بغیر جیلوں میں ٹکٹیاں لگادیں، پیپلزپارٹی کے جیالوں کو ان پر الٹا لٹا کر کوڑے مارے جاتے ۔ 
پھر بھی کسی کے ذہن میں بغاوت کا کیڑا نظر آیا تو ایسے دو اڑھائی تین سو افراد کو ایک جہاز میں بٹھاکر لندن ائیرپورٹ پر پھینک کر بے کسی اور بے چارگی کے سپرد کر دیا گیا۔ آج اگر اعدادو شمار پر نظر ڈالی جائے تو دنیا کے 47ممالک میں فوجی عدالتیں قائم ہیں جو مقدمے سن رہی ہیں، فیصلے کررہی ہیں ۔ ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، بھارت، سعودیہ، مصر، روس،چین اور ایران جیسے ممالک شامل ہیں۔ خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں فوجی عدالتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ خود تحریک انصاف کے دور حکومت میں فوجی عدالتوں نے کئی فیصلے سنائے۔ اب تحریک انصاف والوں کی اپنی باری آئی ہے تو انھیں فوجی عدالتیں بُری لگنے لگ گئی ہیں، پاکستان میں جو کوئی بولتا ہے، آئین اور قانون کی بات کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کا یہی آئین فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دیتا ہے مگر اس آئین کی طرف سے بھی آنکھیں بند کرلی گئی ہیں۔ یہ بات عام آدمی کی فہم سے بالا تر ہے کہ تحریک انصاف بطور پارٹی9 مئی کے سنگین واقعات کی مجرم ہے۔ پہلا فیصلہ تو اس پارٹی کے بارے میں ہونا چاہیے تھا کہ یہ ایک سیاسی و جمہوری پارٹی ہے یا ایک فاشسٹ اور نازی پارٹی۔ 
پاکستان میں ماضی ہمیشہ پارٹیوں کے خلاف فیصلے کیے گئے اور ان میں سے اکثر پر پابندی عائد کردی گئی اور غیرآئینی،غیرجمہوری اور غیر سیاسی قرار دے دیا گیا۔ انھیں اس امرکی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی کہ وہ اپنا نام بدل کر کام کرسکیں یا ان پارٹیوں کے ارکان سیاسی پرندوں کی طرح دوسری پارٹیوں کا رخ کرسکیں۔ ایوب خان نے تو چن چن کر جغادری سیاستدانوں کو ’ ایبڈو ‘کردیا تھا۔ جب دنیا بھر سمیت پاکستان کی روایات میں فوجی عدالتوں کا وجود تسلیم کیا گیا تو آج تحریک انصاف کے ساتھ آئین و انصاف کے بنیادی اصولوں کے مطابق کیوں سلوک نہیں کیا جاتا۔ 9 مئی 2023ء کو فوجی چھائونیوں میں جو دنگل برپا ہوا، ایسا کرنے کی ہمت تو بے نظیر بھٹو کو اپریل 1986ء میں بھی نہیں ہوسکی تھی، جب وہ طویل جلاوطنی کے بعد لاہور ائیرپورٹ پر اتری تھیں تو عوام نے لاکھوں کی تعداد میں ان کا استقبال کیا تھا۔ بے نظیر کا جلوس بھی لاہور چھائونی اور مال روڈ سے گزرا تھا، انھوں نے بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ آج میں چاہتی تو لاہور چھائونی کو آگ لگوا دیتی اور گورنر ہائوس پر قبضہ کرلیتی۔ لیکن کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہے۔ انھوں نے تو آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازا تھا۔
تحریک انصاف کا تو مگر دستور ہی نرالا ہے، عمران خان نے اپنے فوج دشمن رویے کو کبھی غیر واضح نہیں رہنے دیا۔ ان کی سب سے پہلی دھمکی یہ تھی کہ میں اقتدار سے نکل کر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ انھوں نے اپنے محسن آرمی چیف جنرل باجوہ کو نیوٹرل ہونے کا طعنہ دیا اور پھر کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ انھوں نے جنرل باجوہ کو میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے بھی یاد کیا۔ عمران خان کی پارٹی کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر غدر مچانے کی ہر حد پار کردی۔ ان نوجوانوں کو پشاور کی حکومت کروڑوں، اربوں کے فنڈز سے نواز رہی تھی۔ پارٹی فنڈز کے نام پر جو پیسہ جمع کیا جاتا ہے، وہ بھی فوج کے خلاف ففتھ جنریشن وار میں جھونک دیا جاتا۔ عمران خان نے پاکستان کے بار بار ڈیفالٹ ہونے کی بات کی اور بارہا کہا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اپنا ایٹمی اسلحہ اور میزائلوں کا ذخیرہ امریکہ کے حوالے کرنا پڑے گا۔ کبھی وہ پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہونے کی دھمکیاں دیتے۔ 9 مئی کو عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے وہ طوفان ِ بدتمیزی برپا کیا کہ بھارت کے جرنیل اس پر عش عش کر اٹھے۔ بھارتی میڈیا بغلیں بجانے لگا کہ جو کام ہم سے 75سال میں کھربوں روپے لگاکر نہیں ہوسکا، وہ عمران خان اور اس کی پارٹی تحریک انصاف نے ایک رات میں کردکھایا۔ اس قدر گھنائونے قومی جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کسی نرمی کے مستحق نہیں۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن