پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بہت خراب ہے جس کی بناء پر پاکستان کا ہر محب وطن شہری تشویش میں مبتلا ہے- عالمی مورخ اور مفکر پاکستان کو" ناکام ریاست" "خطرناک ملک" اور 'دہشت گرد ریاست " کا نام دیتے ہیں- دنیا کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں- سیاح پاکستان آنے پر آمادہ نہیں ہوتے- جب پاکستانی دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو پاکستان کے گرین پاسپورٹ کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے-پاکستان کے ہر شہری کا قومی فرض ہے کہ وہ ان وجوہات کا سنجیدہ جائزہ لے جو پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کا سبب بن رہی ہیں-
1960ء کی دہائی میں پاکستان کا امیج دنیا بھر میں پر کششِ تھا - چین بھارت ملائیشیا جنوبی کوریا پاکستان کے ترقی پذیر ماڈل پر رشک کرتے تھے- پی آئی اے نے اپنی بے مثال کارکردگی کی وجہ سے دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی تھی- کئی ملکوں کی ائیر لائنز پی آئی اے سے ٹرینگ لے رہی تھیں- پاکستان میں تربیلا اور منگلا جیسے میگا ڈیم زیر تعمیر تھے- پاکستان بہترین معاشی ماڈل تھا- دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے معاشی ماڈل کو فالو کر رہے تھے- پاکستان میں اگرچہ آمرانہ نظام تھا مگر سیاسی اور معاشی استحکام کا تسلسل جاری تھا- افسوس ہم ترقی کے اس سفر کو جاری نہ رکھ سکے اور زوال پذیر ہوتے گئے-پاکستان کے خراب امیج کی بڑی وجہ ہمارا اخلاقی زوال ہے- دنیا ہمیں جھوٹ بولنے والے بد دیانت ملکوں میں شمار کرتی ہے- ہم نے رفتہ رفتہ میرٹ کو خیرباد کہ دیا اور اقربا پروری کے مرض میں مبتلا ہو گئے- کرپشن ہمارا کلچر بن چکی ہے- اس کے مضر اثرات نے ہماری ترقی کو جمود کا شکار کر دیا ہے-
آئین اور قانون کی حکمرانی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے- ان وجوہات کی بناء پر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان کے اندر سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوتے اگر پاکستان میں عدل وانصاف کا مضبوط اور مستحکم نظام ہوتا تو پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوتا- ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہے ہوتے- وقفے وقفے کے بعد طویل مارشل لاؤں نے بھی پاکستان کے وقار کو متاثر کیا اور سویلین ادارے مضبوط نہیں ہو سکے- پاکستان کے پالیسی فیصلے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں۔ اس کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی نے بھی پاکستان کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے- مذہب کے نام پر دہشت گردی کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے خود کش حملے کر کے دنیا کو خوف زدہ کر رکھا ہے- ہمارا ریاستی نظام فرسودہ اور ناکارہ ہو چکا ہے- علامہ اقبال نے کہا تھا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
پاکستان میں مواقع موجود ہیں- پاکستان کے نوجوان معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر سرمایہ کاری کرکے انہیں ہنر مند بنا دیا جائے - پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جنت نظیر سرزمین سے نوازا ہے- ٹورازم پر توجہ دے کر ہم زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بہتر بھی بنا سکتے ہیں- پاک فوج نے پہلے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کیا آج بھی اس میں دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے بشرطیکہ وہ سیاست میں مداخلت چھوڑ کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض پر توجہ دے اور حقیقی معنوں میں پیپلز آرمی بن جائے- پاک فوج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ بڑی اہمیت کا حامل ہے - دفاعی تجزیہ نگار توقع کر رہے ہیں کہ اس دورے سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط اور خوشگوار ہوں گے-الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پاکستان کے امیج کو خراب کر رہا ہے۔ ہمیں اپنا روشن چہرہ بھی دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے- پاکستان بھر میں ہونے والی تعلیمی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کو بھی اجاگر کرنا چاہیے-
پاکستان بیرونی قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے- نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں قرضے لے کر قرضوں کی قسط ادا کرنا پڑتی ہے- ہمیں اپنے حکومتی اخراجات کو کم کرنا ہوگا - وی آئی پی کلچر کو خیر باد کہنا ہوگا - ہمارے پاس زرعی وسائل موجود ہیں جن کو بروئے کار لا کر ہم زرعی انقلاب برپا کر سکتے ہیں مگر افسوس ہم زرعی اشیاء برآمد کرنے کی بجائے درآمد کر رہے ہیں- پاکستان کے نوجوان ریاست کی بہت بڑی قوت ہیں وہ اگر بیدار اور باشعور ہو جائیں تو پاکستان کے وقار کو بحال کرنے کے لیے مثالی کردار ادا کر سکتے ہیں - کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا-
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے نکلے گا