فضل حسین اعوان
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو ر±کنی لارجر بنچ ذوالفقار علی بھٹو کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اس سماعت کا آغاز 12دسمبر2023ءسے ہوا۔ریفرنس پر کئی سال بعد ہونے والی پہلی سماعت کے موقع پرمدعی مقدمہ احمد رضاقصوری بھی موجود تھے۔عدالت نے نو معاون مقرر کئے اور سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔یہ کیس براہِ راست دکھایا جارہا ہے۔ اپریل 2011ءمیں صدر آصف علی زرداری کی طرف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ اس ریفرنس میں 5سوالات پوچھے گئے تھے۔
پہلا سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا۔
دوسرا سوال، کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال:کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھا سوال:کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
پانچواں سوال: کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیئے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
اس ریفرنس پر چھ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ پہلی سماعت دو جنوری2012ءکو ، آخری 12نومبر2012ءکو ہوئی۔ پہلی 5سماعتیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں11رکنی لارجر بنچ نے کیں، آخر ی سماعت9رکنی بنچ نے کی۔ یہ پیپلز پارٹی کادورِ حکومت تھا، بابر اعوان وزیر قانون تھے، وہ کیس لڑنے کے لیے پ±ر جوش طریقے سے میدان میں آئے اور جوش میں اپنے ہوش ہوا کے دوش پر رکھ کر وکالت سے معطلی کرا بیٹھے۔ اس کے ساتھ ہی کیس ایک بار پھر بھول بھلیوں میں کھو گیا۔تا آنکہ قاضی فائز عیسیٰ کی عقابی نظروں میں آگیا۔
پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کو10نومبر1974ء کو اس وقت لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اپنی اہلیہ بیٹے اور خوش دامن کے ساتھ گاڑی میں مال سے گزر رہے تھے۔ اگلے روز صبح ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ احمد رضا قصوری نے ایف آئی آر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نامزد کیا تھا۔ احمد رضا قصوری نے اپنی پارٹی سے بغاوت کر دی تھی۔ احمد رضا قصوری کا مو¿قف رہا ہے کہ در اصل نشانہ ان کو بنایا جانا تھا مگر زد میں ا±ن کے والد آگئے۔
احمد رضا قصوری اور بھٹو کے مابین دوستی کا آغاز اس وقت ہواجب 1966ءمیں ایوب خان کی کابینہ سے بھٹو مستعفی ہو کر لاڑکانہ جاتے ہوئے لاہور آئے، جہاںقصوری ان کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ یہیں سیلون میں ملاقات ہوئی اور دوستی کا آغاز ہوگیا۔ قصوری کی دعوت پر بھٹو قصور گئے۔ ان کو بابابلھے شاہ کے مزار پر لے جایا گیا۔ اس دوران بلھے شاہ کے بارے میں احمد رضا قصوری نے بتایا کہ یہ بزرگ بڑے انقلابی تھے۔ انہوں نے سٹیٹس کو توڑا۔ ان کا کلام مو¿ثر اور پاور فل ہے۔ بلھے شاہ نے نعرہ بلند کیا تھا:
منگ او بندیا اللہ کولوں ج±لی گ±لی ک±لی
بھٹو کے اس کا مطلب پوچھنے پر بتایا گیا ج±لی کپڑا، گ±لی روٹی، ک±لی مکان۔ بھٹو یہ سن کے گویا اچھل پڑے اور کہاکیوں نہ اسے منشورکا حصہ بنالیں: روٹی، کپڑا اور مکان۔
3مارچ1971ءکو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ بھٹو نے کہا تھا مغربی پاکستان سے جو بھی ر±کن اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ قصوری صاحب ڈھاکہ چلے گئے مگر اجلاس نہ ہو سکا۔ان کا جانا بقول شخصے بھٹو صاحب دل میں کانٹھ باندھ گیا۔
4جون 1974ءکو بھٹو نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین متفقہ ہے اس پر تمام ممبران نے دستخط کئے ہیں۔ اس پرقصوری نے ترنت جواب دیا۔ رتو ڈیرو سے آنے والے فاضل مقرر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ میں نے آئین پر دستخط نہیں کئے۔ اس پر بھٹو نے طیش میں آ کر کہا تھا۔ میں نے اس شخص کو بہت برداشت کر لیا۔ یہ مجسم زہر قاتل ہے۔ اب اسے قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ اس تقریر اور جواب الجواب تقریر کے5ماہ بعد محمد احمد خان کا مرڈر ہو گیا تھا۔ جس کی ایف آئی آر بھٹو صاحب پر درج کرائی گئی۔ اکتوبر1975ء میں یہ مقدمہ قاتلوں کا سراغ نہ ملنے پر داخل دفتر کر دیا گیا۔ ان دنوں حنیف رامے وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔
اگلے انتخابات قریب آتے ہیں تو احمد رضا قصوری پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قصوری نے وزیر اعظم بھٹو کو رقت آمیز خطوط لکھے جس پر انہوں نے قصوری کو پارٹی میں لینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔6اپریل 1976ءکو ان کی نصرت بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ جس میں درخواست کی گئی کہ پارٹی میں ان کی واپسی کے موقع پر محترمہ موجود رہ کر عزت بخشیں۔ اگلے دن ماڈل ٹاو¿ن کی رہائش گاہ پر کارکنوں کے جھرمٹ میں قصوری صاحب پیپلز پارٹی میں ایک بار پھر شامل ہو گئے۔ اس موقع پر بیگم محمد احمد قصوری نے کہا تھا، وہ وزیر اعظم پر اپنے تمام بیٹے قربان کر دیں گی کیوں کہ ان کے بغیر ملک قائم نہیں رہے گا۔اسی قومی اسمبلی جس میں قصوری بھٹو صاحب کے گلے پڑا کرتے تھے۔ اسی اسمبلی میں جنوری1977ء میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے بعد زرعی اصلاحات کی تعریف کر رہے تھے۔ اس سب کے باوجود قصوری کو ٹکٹ نہ دیا گیا۔
جنرل ضیاءالحق کی طرف سے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو قتل کیس پھن پھیلاتا اور پھنکارتا ہوا پٹاری سے نکل آیا۔ احمد رضا قصوری اسی ج±ون میں آگئے جس میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں دوبارہ شمولیت سے قبل تھے۔ یہ کیس براہِ راست لاہور ہائیکورٹ میں چلا، پانچ ر±کنی بنچ کے سربراہ قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق تھے۔مبینہ طور پر ان کو بھٹو پر چیف جسٹس نہ بنانے کا غصہ تھا۔ بنچ کے دوسرے ججز میں، ذکی الدین پال، ایم ایس ایچ قریشی، آفتاب حسین اور گلیاز خان شامل تھے۔ بنچ نے متفقہ فیصلے میں ذوالفقار علی اور ایف ایس ایف کے4اہلکاروں کو سزائے موت سنادی۔ بھٹو کے وکیل یحیٰ بختیار نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ جہاں9ر±کنی بنچ بنایا گیا۔ فیصلہ سات ججوں نے سنایا۔
اس فیصلے سے تین ججوں جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے اتفاق کیا جبکہ جسٹس صفدر شاہ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس محمد حلیم نے اختلافی نوٹ لکھے۔ جسٹس انوارالحق نے کاسٹنگ ووٹ کا حق استعمال کرکے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کر دیگیا
فیصلہ دینے والا بینچ ابتدا میں نو ججوں پر مشتمل تھا مگر تکنیکی انداز میں دو ججوں کو مطلوبہ فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے لیے بینچ سے الگ کر دیا گیا۔ان میں ایک جسٹس قیصر خان جو ایڈہاک جج تھے، دوسرے جسٹس وحید الدین تھے جو بیمار ہوئے، تندرست ہونے پر انھوں نے استدعا بھی کی تھی۔حامد خان کے بقول چیف جسٹس نے ان کا ارادہ جان لیا تھا کہ وہ بھٹو کی رہائی کے حق میں ووٹ دیں گے۔اس لئے انہیں بنچ میں شامل نہیں کیاگیا۔
اب ایک طویل عرصے کے بعد بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ جس کی سربراہی قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں دیگر جج صاحبان میں شامل ہیں۔جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی۔کیس کی ایک سماعت ہوچکی۔بلاول کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بھٹو کے مرڈر کے پیچھے ججوں اور سیاستدانوں کو بھی چیف جسٹس بے نقاب کریں۔احمد رضا قصوری نہ ہوتے تو کیس یکطرفہ ہوسکتا تھا۔مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے۔بھٹو کی اس کیس میں بریت ٹیکنیکل بنیادوں پر ہوسکتی ہے، میرٹ پرہوسکتی، فیصلہ برقراربھی رہ سکتاہے۔اگر میرٹ پر بھٹو کو بالفرض بری کیا جاتا ہے تو عدالت سے توقع کی جانی چاہیئے کہ پھر اصل قاتلوں کا گھر بھی دکھا دے گی،کیونکہ قتل ہوا اور کوئی تو قاتل ہے۔صدارتی ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کے اس اعتراف پر رکھی ہے کہ ان پر ایسے فیصلے کیلئے دبا? تھا۔نسیم حسن شاہ نے بینظیر بھٹو سے معافی بھی مانگی تھی۔کب کہاں کیسے؟؟؟اس کا گواہ حیات ہے جس سے میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔اس کی تفصیل اگلے کالم میں،ان شاء اللہ۔