کلیاتِ مشیر کاظمی کا مطالعہ


ہائیڈ پارک۔۔۔۔۔۔ میم سین بٹ 

 لاہور کے شاعروں میں بہت کم ایسے شاعر گزرے ہیں جنہوں نے بیک وقت ملی و قومی نغموں کے ساتھ فلمی گیت بھی لکھے ہوں ہمیں تو ایسے شاعروں میں تنویر نقوی ،فیاض ہاشمی ، کلیم عثمانی ، مسرور انور اور ریاض الرحمٰن ساغر کے علاوہ مشیر کاظمی کے نام ہی یاد آ رہے ہیں گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب میں کتاب میلہ کے دوران اقبال بخاری کی جانب سے فراہم کی جانے والی مشیر کاظمی کی کلیات پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ انہوں نے نہ صرف قومی شاعری کی بلکہ شاہکار اردو اور پنجابی فلمی گیت بھی تخلیق کئے علامہ اقبال سے بھی وہ دلی عقیدت رکھتے تھے سید مشیر حسین کاظمی ریاست پٹیالہ کے قصبہ بنوڑ میں 22 اپریل 1924ءکو پیدا ہوئے تھے اور والد کی طرح میٹرک پاس کرکے پولیس میں بھرتی ہوگئے تھے تاہم جلد ہی انہوں نے محکمہ پولیس کی ملازمت چھوڑ دی تھی اور تقسیم ہند کے وقت گھرانے کے ساتھ ہجرت کر کے مظفر گڑھ کے شہر علی پور میں مقیم ہوگئے تھےتاہم بعدازاں لاہور چلے آئے تھے اور ادیب فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد لکشمی چوک رائل پارک کے کنگ سرکل ہوٹل میں محفل جما کر فلمی شاعری کرنے لگے تھے انہوں نے بطور ہدایت کار فلم " بمبے والا "بھی بنائی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی تھی مشیر کاظمی نے شادی بھی ریڈیو ، ٹی وی کی فنکارہ سے کی تھی وہ ہفت روزہ آنچل ، ماہنامہ خانم اور رسالہ ارض پاک کے ایڈیٹر بھی رہے تھے ان کا 8۔ دسمبر 1975ءکو انتقال ہوگیا تھا اور انہیں لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں دفن کیا گیا تھا مشیر کاظمی کے صاحبزادے ثقلین کاظمی نے اپنے بھائیوں سبطین کاظمی اور ذوالقرنین کاظمی کی مدد سے اپنے والد مرحوم کا کلام جمع کر کے انہیں ترتیب دینے کے بعد کلیات چھپوائی ہے جسے ترتیب پبلیکیشنز نے شاہراہ ایوان تجارت لاہور سے رواں سال شائع کیا ہے ثقلین کاظمی نے کلیات کا انتخاب اپنی والدہ مرحومہ روبینہ شاہین اور اپنے صاحبزادے علی کاظمی کے نام کیا ہے۔
 پیش لفظ میں ثقلین کاظمی بتاتے ہیں کہ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر صرف 16 برس تھی ان کے بھائی سبطین کاظمی مرحوم نے والد کی منقبت ، سلام اور مرثیہ پر مشتمل شاعری کا مجموعہ " کھلی جو چشم بصیرت" کے عنوان سے شائع کروایا تھا لہذا انہوں نے کلیات کی اشاعت کے لئے اپنے والد مرحوم کی قومی نظموں اور فلمی گیتوں کو بھی تلاش کرنا شروع کیا اور بالآخر انہیں اکٹھا کر کے کتاب کی صورت میں ترتیب دے کر شائع کرنے میں کامیاب ہو گئے اس سلسلے میں خصوصی رہنمائی پر ثقلین کاظمی نے معروف شاعر اور سابق صوبائی سیکرٹری اطلاعات وثقافت پنجاب شعیب بن عزیز کے ساتھ اظہار تشکر کیا ہے ، شعیب بن عزیز نے کتاب پر رائے دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کالج دور میں مشاعروں کے دوران مشیر کاظمی کے کلام اور ترنم سے سامعین کو مسحور ہوتے دیکھا ان کے کلام میں پہاڑوں سے اترتی ہوئی ندیوں کی تیزی اور تندی بھی تھی ، میدانوں میں بہنے والے دریاو¿ں کی روانی اور بہاو¿ بھی تھا اور سطح زمین پر پھیلے ہوئے سمندروں کی گہرائی اور گیرائی بھی تھی ، کربلا اور پاکستان مشیر کاظمی کی شاعری کے دو بنیادی حوالے ہیں۔
  شورش کاشمیری نے مشیر کاظمی کو "حدی خوانِ جدید" قرار دیتے ہوئے انہیں اخلاق و افلاس کے سانچہ میں ڈھلا ہوا انسان لکھا ، الطاف حسن قریشی نے انہیں حساس عوامی شاعر قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے کلام اور شعری لہجے میں انقلابی طاقت موجزن تھی وہ جہاں جاتے اپنی نظموں سے احساس زیاں سینوں میں نشتر کی طرح اتار دیتے تھے ، مجیب الرحمٰن شامی نے بتایا کہ مشیر کاظمی کی معرکة الآراءنظمیں ان کی زیرادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ اسلامی جمہوریہ سمیت دیگر جرائد میں بھی شائع ہوئیں انہیں شاعر پاکستان کہا اور مانا جانے لگا ، ناصر زیدی نے ان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا کہ مشیر کاظمی اپنا کلام مخصوص لحن سے سنا کر چھا جاتے تھے ان کے تحت اللفظ پڑھنے کے انداز میں عجب والہانہ پن اور عجب سوز و گداز ہوتا تھا ، امجد اسلام امجد نے لکھا کہ وہ ہر عمر اور ہر مزاج کے لوگوں میں یکساں طور پر مقبول تھے جبکہ عطاءالحق قاسمی نے انہیں لاجواب گیت نگار قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے ملی نغمے اور فلمی گیت سارے لاجواب تھے وہ ان کے گیت آج بھی سنتے ہیں تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔
 مشیر کاظمی نے جن اردو اور پنجابی فلموں کے لئے گیت لکھے تھے ان میں فلم دوپٹہ ، شکریہ ، جمیلہ ، برکھا ، بشیرا ، بیٹا ، باغی ، دل لگی ، وحشی ، منڈی ، مظلوم ، ممتا ، پتن ، زمین ، پٹھان ، خاندان ، دربار ، انجام ، تڑپ ، عادل ، کمانڈر ، کالا پانی ، جھیل کنارے ، شام سویرا ، میں اکیلا ، الف لیلہ ، لالہ رخ ، بھائی جان ، شاہی فقیر ، شہنشاہ جہانگیر ، آخری چٹان ، بدل گیا انسان ، وطن کا سپاہی ، ماں کے آنسو ، عورت کا پیار ، رشتے پیار کے اور فلم دلاں دے سودے وغیرہ شامل تھیں ان کے مشہور فلمیں گیتوں میں "سب جگ سوئے اور ہم جاگیں ، تاروں سے کریں باتیں چاندنی راتیں ( فلم دوپٹہ) تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے ، آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسا گئے ( فلم دوپٹہ) شکوہ نہ کر گلہ نہ کر ، یہ دنیا ہے پیارے ، یہاں غم کے مارے تڑپتے رہے( فلم زمین) ہم چلے اس جہاں سے دل اٹھ گیا یہاں سے ، انہیں دے دو خبر مر چکے ہم مگر ، لے چلے یاد ان کی یہاں سے ( فلم دل لگی ) ہم ہیں دیوانے تیرے، عاشق مستانے تیرے ، ہم سے نگاہیں تو ملا (فلم آخری چٹان ) کیسے کہوں میں الوداع جاو¿ں کہاں میں کیا کروں ، آنے کا وعدہ تم کرو ملنے کی میں دعا کروں ( فلم بھاگی ) مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم اس دیس میں پھر نہ آو¿ں گا (فلم دل لگی) کاہنوں کڈھنا ایں نک نال لکیراں ، توں دل دی لکیر کڈھ لے (فلم بشیرا) وغیرہ شامل ہیں ، مشیر کاظمی نے 1963ئ میں بننے والی فلم کالا پانی کے لئے گیت لکھا تھا جس کا مکھڑا تھا " اللہ میاں نیچے آ اللہ میاں نیچے آ ، دنیا تو دیتی نہیں تو ہی روٹی دیتا جا۔۔۔ سائیں اختر نے اپنی پنجابی نظم " اللہ میاں تھلے آ " غالبا" بہت بعد میں کہی تھی ، مشیر کاظمی نے کل 84 فلموں کیلئے 267 گیت لکھے تھے ان کے زیادہ تر گیت گلوکار مسعود رانا نے گائے تھے ملکہ ترنم نورجہاں ، مالا بیگم اور آئرن پروین نے بھی مشیر کاظمی کے فلمی گیت گائے تھے ان کی 2 فلمیں "شکوہ نہ کر "اور "تیری میری جندڑی "ریلیز نہ ہوسکی تھیں ، پاک بھارت جنگ کے فوری بعد فلم " مادرِ وطن " کیلئے فوجی شہداءکی یاد میں لکھا جانے والا مشیر کاظمی کا نسیم بیگم کی پرسوز آواز میں نغمہ سن کر ہم اداس اور غمگین ہوجایا کرتے ہیں۔۔۔
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
 تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں 
 مشیر کاظمی نے فلم بشیرا اور فلم چنگیز خان سمیت چند فلموں میں کردار بھی ادا کئے تھے ، پاک بھارت جنگوں کے دوران دادِ شجاعت دینے والے بری ، بحری اور فضائی افواج کے افسروں و جوانوں کو بھی انہوں نے منظوم خراج تحسین پیش کیا ان فوجی افسروں میں لاہور میں بی آر بی نہر کے قریب شہید ہونے والے میجر عزیز بھٹی (نشان حیدر) کے علاوہ چونڈہ اور ظفروال سیکٹر کے محاذ جنگ پر دشمن ملک بھارت کے بکتر بند دستوں کو تہس نہس کرنے والے لاہور کے میجر دلاور حسین بٹ ( ستارہ جرات) فضا میں بھارت کے متعدد جنگی جہاز تباہ کرنے والے فضائیہ کے پائلٹ ایم ایم عالم (ستارہ جرات) پٹھان کوٹ کا ہوائی اڈہ تباہ کرنے والے فضائیہ کے پائلٹ خواجہ یونس حسن (ستارہ جرا¿ت) بھارت کا "دوارکا" تباہ کرنے والے بحریہ کے کمانڈر اے آر خان اور بھارت کا بحری جہاز سمندر میں غرق کرنے والے بحریہ کے لیفٹیننٹ احمد نسیم (ستارہ جرات )شامل ہیں مشیر کاظمی کے ایک قومی نغمے کا اختتام لاہور کے حوالے سے ہوتا ہے۔۔۔
اہل لاہور کو مبارک ہو 
سبز پرچم ہلال استقلال 
چھ ستمبر کی یہ نشانی ہے
 شان لاہور کی کہانی ہے
 افسانہ نگار کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم میں مشیر کاظمی گلہ کرتے ہیں کہ افسانہ نگار بے راہروی پھیلا رہے ہیں اور نظم میں افسانہ نگر سے کہتے ہیں کہ کاش تیرا یہ قلم ایسے افسانے لکھتا جن کے الفاظ سے تلقین و ہدایت ہوتی ، علامہ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں ایسا ہی گلہ کیا تھا کہ چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند ، کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ، ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس ، آہ بیچاروں کے اعصاب پہ ہے عورت سوار۔۔۔ علامہ اقبال سے مشیر کاظمی کو والہانہ عقیدت تھی ناصر زیدی نے بتایا کہ مرکزیہ مجلس اقبال کے اجتماع میں ان کی نظم "بارگاہِ شاعرِ مشرق میں" سن کر لوگ دھاڑے مار مار کر روتے رہے تھے ، مشیر کاظمی کی نظم " غزل اقبال کی چھیڑو" کے چند اشعار پر کالم کو سمیٹتے ہیں۔۔۔۔
نہ تارا ہے نہ جگنو ہے نہ شعلہ ہے نہ چنگاری 
مرا گھر بے چراغاں ہے ،غزل اقبال کی چھیڑو 
ستاروں پہ کمندیں ڈالنے والوں کے سینے میں 
نئے جذبوں کا فقداں ہے ، غزل اقبال کی چھیڑو 
جگایا تھا جسے اقبال نے جبریل کے پر سے 
وہ غفلت میں مسلمان ہے، غزل اقبال کی چھیڑو

ای پیپر دی نیشن