کرو مہربانی تم اہل زمیں پر(۳)

Dec 13, 2023

قاضی عبدالرئوف معینی


فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
مشہور برطانوی سائنس دان ”تھامس ہکسلے “کے پوتے ،انگریزی زبان و ادب کے مشہور لکھاری، فلسفی ،دانشور اور پچاس کتابوں کے مصنف” آلڈوس لیونارڈ ہکسلے “جب عمر کے آخری حصہ میںبستر علالت پر تھے تواپنے علم اور تجربوں کے خلاصے کو سات سادہ الفاظ میں بیان کیا”لٹ اس بی کائنڈر ٹو ون این ادر“۔ان کے اس قول کا مفہوم ایک شعر کی صورت میں بخوبی بیان کیا جا سکتا ہے کہ
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
آلڈوس نے اپنے ایک ناول میںپچیسویں صدی میںآنے والے سماج کا یک خیالی خاکہ پیش کیا ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عمر کے اس حصہ میں لکھی گئی تحریروںسے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انہیں تصوف اور مشرقی فلسفہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ آلڈس کا یہ مشہور زمانہ قول راقم نے اہل دانش کی خدمت میںپیش کیا تو وہ جھوم اٹھے۔آلڈوس کا بہت شکریہ جس نے ہمیں بھولا بسرا سبق یاد کروادیا۔
ایک مسلمان کے لیے یہ پیغام نیا نہیں ہو نا چاہیے ۔قرآن کریم کی سینکڑوں آیات،ہزاروں احادیث ،سیرت طیبہ سے بے شمار واقعات اور اولیائے کرام کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ 
یہ پہلا سبق تھا کتب ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالق دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت ،یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساںکے انساں 
کریم آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ” ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا عیال یعنی کنبہ ہے۔پس اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میںزیادہ محبت اس شخص سے ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہو“۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ” جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا “ اسلام امن و سلامتی درس دیتا ہے ۔انسان تو انسان ہیں ، دین متین میں جانوروں کے ساتھ بھی رحم کرنے کا حکم دیا گیا۔المیہ یہ ہے کہ ان تعلیمات کے اثرات غیر مسلم معاشروں میں تو دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن مسلم معاشرہ میں نظر نہیں آتے ۔دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیںیا تو عوام ان سنہری تعلیمات سے لا علم ہیں یا پھرہم نے ان سے رو گردانی کر لی ہے۔وجہ کچھ بھی ہو بد قسمتی ضرور ہے۔مسلمانوں کا شاندار ماضی اور پس ماندہ حال اس راز سے پردہ اٹھا رہا ہے قوم بھٹک گئی ہے ۔ویسے تو تمام اسلامی ممالک میں صورت حال ایک جیسی ہی ہے لیکن ملک عزیز جس کو اسلام کا قلعہ کہا جا تاہے صورت حال انتہائی ابتر ہے۔اس کا مشاہدہ ہر سرکاری دفتر، ادارہ ،گلی، محلہ اورشہر میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔جھوٹ ،حسد ، فتنہ و فساد ،غیبت ،بہتان ، ،چوری ،دھوکہ دہی ،تمسخر ،فرقہ واریت ، گروہ بندی ، عدم برداشت کا کلچر، تعصب، اقرباءپروری ،حق تلفی،رشوت ،ناجائزمنافع خوری ،لوٹ مار ،بے رحمی ،منافقت کونسی برائی ہے جو اس معاشرہ میں نہیںپائی جاتی۔ان اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی بیماریوں نے سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ہر کوئی آگے بڑھنے کی دوڑ میں دوسروں کی ٹانگیں کھینچ رہا ہے اور گردنیں پھلانگ رہا ہے ۔بات سچ بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ درندوں کی اس بستی میں انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لیے۔اب توحالت یہ ہو گئی ہے کہ
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا
ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا
تعیش میں جینا ، نمائش میں مرنا
سدا خواب غفلت میں بے ہوش رہنا
دم نزع تک خو د فراموش رہنا
اسلام نے حقوق کی ادائیگی اور صلہ رحمی پر زور دیا ہے۔صلہ رحمی یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کی جائیں۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔صحت من معاشرہ کی تشکیل کے لیے لازم ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔معاف کردینے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔یقین مانے یہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔تھانے اور عدالتیں ویران ہو جائیں گی۔مغربی تہذیب و تمدن کے پیروکار و اور کسی کی نہیں مانتے نہ مانو آلڈوس رینالڈ و ہکسلے کی بات ہی مان لو۔

مزیدخبریں