ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین ہم روزمرہ کی زندگی میںبعض اوقات کسی مسئلے کو معمولی یا آسان سمجھ سمجھتے ہیں اور اس کا حل ہمیں بظاہر سادہ اور سہل نظر آتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں جب ہم غیر ضروری مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں تو ہم بے چینی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں، غصہ آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن جب ہم اپنے اس معاشرے میںاس عام سے بظاہر چھوٹے سے مسئلے سے بھی عہدہ برا نہیں ہو پاتے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے ہی مسائل دوسرے لوگ بآسانی سفارش یا رشوت سے حل کرتے ہیں تو ہمای بے چینی غصہ میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے اور چونکہ یہ ہمارے معاشرے میں عام ہے ، اس لئے عوام کی اکثریت جو اتنی با اثر نہیں ہوتی ، ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر یا تو مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے۔اس بے بسی کے شکار لوگ جب روزانہ کی بنیاد پر مایوسی کا شکار ہونا شروع ہوتے ہیں تو نتیجے میں بے حسی کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے جس سے انسانی سوچ میں سختی ، درشتی اور بےدردی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ اس سے معاشرے میں بے رحم خیالات اور سوچ پروان چڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور انتقام اور اپنا کام ہر جائز یا ناجائز طریقے سے کرانے کا رجحان پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ بے حسی بل آخر عدم برداشت کی جگہ لیتی ہے جس سے آہستہ آہستہ عام لوگ قانون کو ہاتھوں میں لینا شروع کردیتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی تصویر ہمارے آج کے پاکستان کی روزمرہ کی زندگی کی ہے جس سے ہر دوسرا شخص قانون کو خود ہاتھوں میں لیتا نظر آتا ہے اور روزانہ تشدد کی وارداتیں اسی کی وجہ سے ہیں۔ ہماری مفاد پرستی ہماری بے حسی کی وجہ ہے یا ہمارٍی بے حسی انفرادی مفاد پرستی سے شروع ہو کر مجموعی مفاد پرستانہ سوچ کی وجہ سے ہے یا ہم سب ہی اپنی خواہشات کے بلا رو رعائت اسیر ہیں جس کی وجہ شائد ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ارد گرد اندھرا ہی اندھرا نظر آ تا ہے جس کو دیکھ کر ہی جناب حبیب جالب نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ دیس ہے اندھے لوگوںکا، اس لئے یہاں ہر دوسرا شخص دوسرے کا حق کھاتا، سفارشوں سے کام نکلواتا نظر آسکتا ہے کسی کو کسی سے غرض نہیں کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے فقط اس کر اپنا کام ہونے سے غرض ہے باقی جائیں باڑ میں ، اور حکومت تو ہے ہی اپنے چیلوں کانٹوں اور امراءکے مفادات کے تحفط کے لئے ۔ غریبوں سے کس کافر کو سروکار ہے ، غریب تو چلو ہوتے ہیں صرف نعروں اور جھنڈے اٹھانے سے خوش باقی الا تیری یاری۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ عام پاکستانی تو ساری ساری عمر دو جمع دو گننے میں تیاگ دیتا ہے، میر تقی میر نے شائد انہی کےلئے ان غیرب ہمسفروں کے لئے ہی کہا تھا کہ فقیرانہ آئے صدا کر چلے ، کوئی ٹی بی سے مر گیا ، کسی کو ہسپتال میں داخلہ نہ ملا اور کوئی گاوں کی پگڈنڈی پر ہی جان کی بازی ہار بیٹھا یہی ہوتا ہے اندھا معاشرہ اور ایسے دیس کو اندھا دیس کہتے ہیں جس میں عامی کو حکومت چھوڑ اپنی کچھ خبر نہیں ہو تی کہ کب زندگانی کی زنجیر کب ٹوٹ جائے ۔اس لئے اس دیس میں چاہے کچھ بھی ہو ہر شخص کسی بھی طریقے سے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز، اپنے کام ، روز مرہ کی ضروریات پہلے خود پوری کر لے باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ اپنی تسلی کے لئے یہی کافی کہ یہ خود غرضانہ سوچ تو ہمارے ملک میںہر سطح پر انفرادی سے لے کر اجتماعی طور ہے ہم کیا کریں ، اپنی جھوٹی تسلی تشفی کے لئے ہم تو اس سسٹم کا خود شکارر ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور نظام اس ملک میں رائج ہونے ہی نہیں دیا گیا یا کوئی ایسی قیادت کا دور دور تک اب بھی امکان نظر نہیں آرہا جو سچ میرٹ انصاف اور جہاں نوکری یا ٹھیکہ سے لے کر کوئی بھی کام بغیر سفارش یا سے آج تک ہوتا ہو ،یہی ستر سال سے ایسے ہی چل رہا ہے اور تمام پاکستانی اس نحوست کا بلا تخصیص شکار ہیں۔ اسی ذاتی مفاد پرستی سے شروع ہو کر ہم ذہنی پستی کا شکار اس لئے ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ روش اخلاقی طور پر تو مناسب قرار نہیں ، اس لئے اسی وجہ سے ہم غیر ضروری سوچ وبچار، بے یقینی اور انجانے خوف کا شکار ایک معاشرہ بنتے جا رہے ہیں جو کسی بھی واقع پر پر تشدد ہو سکتا ہے یا انتہائی خوفزدگی کا شکار ہو کر غیر ضروری ظلم بھی برداشت کرنے کا عادی ہوتا جا رہا ہے۔اسے کہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں فرد کی اتنی تذیلیل کر دی جائے کہ وہ اپنی نظروں میں گرنا شروع ہو جا تا ہے اور ہر طرف سے مصنوعی سہارے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے تا کہ اس کی ضرورت تو پہلے پوری ہو، بعد میں وہ عمران خان یا نواز شریف کے بارے میں سوچے گا ۔حق سچ کی تمیز ہم باتوں تک کر رہے ہیں ۔حیرانی اس بات پر ہے کہ جب ڈیوٹی پر جانے والا ہر ملازم لیٹ جانے یا گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے میں کوئی عار نہ محسوس کرے، بغیر سفارش کوئی کام ہونے کا تصور محال ہو تھانے میں غریب کو سرعام مار پڑے ، کچہری میں سال ہا سال فیصلہ مجرم یا مدعی کے حق میں نہ ہو، امتحان میں نقل جعل سازی عام ہو جج پر رشوت کا عام الزام ہو ، واعظ فرقہ پرستی کو فروغ دیں، آئے دن دھماکے ، قتل ڈاکے قانون کو ہاتھ میں لینے کے واقعے عام ہوتے جائیںڈیوٹی پر مقرر کسی ملازم کو کوئی وڈیرا گاڑی کے نیچے دے کر چلا جائے اور بعد میں اس کو کوئی سزا نہ تک ہو، کوئی سرجن ڈاکڑ کسی نواب کے حکم کی نافرمانی پر سرعام قتل ہو جائے اور ااس نواب کو کوئی سزا تو دور کی بات ، اس کا پھر وزیر بن جاناروز کا معمول ہو ،پوسٹنگ ٹرانسفر پر رشوت عام ہو، اس قبائلی رائج نظام میں بے حسی اور بے رحمی نہیںہوگی تو کیا ہو گا۔ بارڈر پر روزانہ کی جھڑپیں معمول ہو، ایسے ماحول میں اخلاقی ، تحقیقی،ادارے و سرگرمیاں کہاں پروان چڑھ سکیں گی، یہاں تو بے حسی ہی پروان چڑھے گی ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہو گا آج کل مخالف عورت سیاسی ورکروں کا لا پتہ ہونا اور انہیں لمبی جیلیں کاٹنے پر مجبور کر کے ان کے اعصاب کو توڑنے کی کوشش کرنا اس دیس کی پیشانی کی چمک کو داغ دار کر رہی ہیں۔جنرل ضیا کے دور میں تو سیاسی ورکروں کو کوڑے لگائے جانا معمول تھا جو ایک جنگلی وحشی سوچ تھی گینگ ریپ بچوں کا جنسی ریپ، موٹر وے پر زیادتی کے واقعات ، ساہیوال میں نامعلوموں کے ہاتھوں چار افراد کا قتل اور اس کی وجہ کا آج پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے پر پتہ نہ چلنا سیالکوٹ کی فیکٹری میں قانون کو ہاتھ میں لینے کے واقعات، جڑانوالا اور شاہدرہ میںمذہبی آڑ میں قانون کو اپنے ہاتھوں لے کر ملزموں کو خود مارنے کی روائت اور اس جیسے کئی واقعات ہمارے معاشرے کے کھوکلا پن ، قبائلی طرز کا رہن سہن اور یہی پیشن گوئی مولانا ابولکلام آزاد نے انیس سو چھیالیس کو کی تھی کہ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا اور اس پر مختلف ملیٹنٹ گرو ہ مختلف علاقوں پر اپنے اپنے علاقوں میں جنگل کا قانون چلاتے رہیں گے۔روزانہ دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ ہم بحیثیت ایک قوم اپنے آپ کو ایک اسلامی فلاحی ، انصاف پسند قوم بنانے اور منوانے میں ناکام ہیں مفادپرست نقاد ، انکر اور ساستدان فوجی اور چرب زباں واعظ، تما م کے بارے میں یہ کہنا نا مناسب نہ ہو گا
واعظ شہر تیری چرب زبانی کی قسم
تو نہ ہوتا فقط صرف مسلماں ہوتے
اور بقول جالب
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر