سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہورہی ہے، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کررہا ہے، 6 رکنی بنچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔ سماعت کے آغاز پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’جسٹس سردار طارق اپنے نوٹ میں فوجی عدالتوں بارے رائے دے چکے ہیں، اس لیے آپ کے بینچ پر موجود ہونے پر اعتراض اُٹھایا ہے، آپ بیٹھ کر ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سُن رہے ہیں‘، اس کے جواب میں جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ’تو کیا کھڑے ہو کر کیس کی سماعت کریں؟ کسی نے آپ کو نوٹس کیا ہے؟ میں نہیں ہوتا بنچ سے الگ کیا کر لیں گے.اس موقع پر جب وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ’نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں‘، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’فریقین کے وکلاء کا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹس پر کیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے‘، اس نقطے کے جواب میں وکیل سلمان اکرم راجہ نے مأقف اپنایا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہوگا‘۔ سماعت گو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت نے استفسار کیا کہ ‘ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کس اسٹیج پر تھے؟ کیا ٹرائل مکمل ہوگئے تھے؟‘، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’کچھ ملزمان پر فرد جرم عائد ہوگئی تھی کچھ پر ہونا تھی بہت سے ملزمان شاید بری ہو جائیں جنہیں سزا ہوئی وہ بھی تین سال سے زیادہ نہیں ہوگی‘، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ’آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا تین سال سے کم ہوگی‘؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہوگا‘۔ سماعت میں جسٹس میاں محمد علی مظہر نے اسفسار کیا کہ آپ ملٹری کورٹس میں ہونے والے ٹرائل کو یقینی فئیر ٹرائل کیسے بنائیں گے؟ ۔وکیل وزرات دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ سویلین میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ بھی آتے ہیں، آرمی ایکٹ میں سویلین پر دائرہ اختیار پہلے ہی محدود تھا۔سویلین سے متعلق دفعات کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا،میری درخواست ہو گی کہ ملٹری کسٹڈی میں جو لوگ ہیں ان کا ٹرائل چلنے دیں، ہر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو رہا،صرف ان سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، سپریم کورٹ میں گزشتہ روز 23 فوجیوں کی شہادت کا تذکرہ بھی ہوا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ جو فوجی جوانوں کو شہید کر رہے ہیں ان کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا۔ جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دئیے کہ سیکشن 2 ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشتگردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت موقع دے تو اس معاملے پر سیر حاصل دلائل دیں گے،