چند روز قبل اچانک ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز نمودار ہوئی کہ سوئٹزر لینڈ میں میناروں پر پابندی کیلئے ریفرنڈم ہو رہا ہے پھر خبر ملی کہ اکثریت نے پابندی لگانے کے حق میں ووٹ ڈال دیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ عام طور پر ایک پُرامن‘ انصاف پسند اور انسانی حقوق کے حوالے سے اچھا ریکارڈ رکھنے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں دوسری اقلیتوں کے علاوہ تقریباً چار لاکھ مسلمان آباد ہیں لیکن کبھی کوئی تنازع سُننے میں نہیں آیا۔ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال یہاں آتے ہیں اور کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ پچھلے دو سو سال میں کسی جنگ میں ملوث نہیں ہوا یہاں تک کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جب پورا یورپ دو مخالف گروپوں میں تقسیم ہو کر ہولناک جنگ لڑتا رہا۔ سوئٹزر لینڈ غیر جانبدار رہا اور جنگ سے الگ رہا۔ ایسے ملک میں مسجدوں کے میناروں پر پابندی جوکہ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کیخلاف ہے یقیناً ایک چونکا دینے والا اور مایوس کن فیصلہ ہے۔
اس فیصلے کے پس منظر اور اس سے ابھرنے والے خدشات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 2005ء میں مسلمانوں نے ایک اسلامک کمیونٹی سنٹر پر 6 میٹر بلند مینار تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی۔ سوس باشندوں کے ایک گروہ نے اسکی شدید مخالفت کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں بلڈنگ اینڈ پلاننگ کمیشن نے یہ درخومست مسترد کر دی۔ مسلمانوں نے اس کو عوامی یا جذباتی مسئلہ بنانے کے بجائے قانونی راستہ اپنایا اور وہ اپنا کیس نہ صرف مقامی عدالت بلکہ وفاقی سپریم کورٹ سے بھی جیت گئے اور اس طرح مینار بنانے کا حق حاصل کر لیا۔ اس طرح یہ 6 میٹر بلند مینار اسلامک کمیونٹی سنٹر پر جولائی 2009ء میں تعمیر کر دیا گیا۔ سوس باشندوں کے اس مخصوص گروہ نے جو مینار کی مخالفت کر رہا تھا اس عدالتی فیصلے کو جو ان کے اپنے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے دیا تھا کھلے دل سے قبول نہ کیا اور اس کو سیاسی رنگ دے دیا۔ انہوں نے نسل پرست اور مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کی اور سوس پیپلز پارٹی جو پہلے ہی اس مہم میں شریک تھی کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو ایک نئے انداز سے اٹھایا۔ سوئٹزر لینڈ کے قانون کے مطابق اگر ایک لاکھ لوگوں کے دستخط کے ساتھ کوئی سیاسی پارٹی معاملہ پر ریفرنڈم کا مطالبہ کرے تو حکومت کو ریفرنڈم کروانا لازم ہو جاتا ہے۔
میناروںکے مخالف لوگ اپنا کیس اپنی ہی عدالتوں میں اپنے ہی قانون کے مطابق نہ جیت سکے کیونکہ عدالت میں قانون کی بات ہوتی ہے دلیل سے بات کی جاتی ہے اور جج صاحبان کسی پراپیگنڈے یا جذباتیت کے تحت فیصلہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف ان لوگوں نے ریفرنڈم کے دوران عام لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا‘ ریفرنڈم کی مہم کے دوران تین باتوں پر خاص طور پر زور دیا‘ اول یہ کہا گیا کہ مساجد کے مینار دراصل اسلامی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سلسلے میں ترک وزیراعظم طیب اردگان کی 1997ء میں کی گئی ایک تقریر کو خوب اچھالا گیا۔ ترک وزیراعظم نے اسلام میں مسجدوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’مساجد ہماری بیرکس‘ اس کے گنبد ہمارے سروں کے ہیلمٹ‘ مینار ہماری سنگین اور اہل ایمان ہمارے سپاہی ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ تشیحات اسلامی معاشرے میں مسجدوں کے بلند مقام کو بیان کرنے کیلئے استعمال کی تھیں لیکن ریفرنڈم کے دوران عوام کے جذبات بھڑکانے کیلئے اس کو خوب استعمال کیا گیا۔ دوسری بات ریفرنڈم کے دوران کہی گئی کہ میناروں سے سوئٹزر لینڈ ہی نہیں بلکہ یورپ کے عیسائی تشخص کی نفی ہوتی ہے اور اسلامی رنگ غالب آنے کا خدشہ ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ میں 150 مساجد موجود ہیں جبکہ مینار صرف چار مسجدوں پر بنائے گئے ہیں۔ تیسری بات جو کہ ریفرنڈم کے دوران میناروں کیخلاف مہم میں کہی گئی وہ یہ تھی کہ ان میناروں سے بلند وازمیں اذان کی آواز آتی ہے اگر بلند آواز پر اعتراض تھا تو آواز کم کرنے یا بند کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا نہ کہ میناروں پر پابندی کا۔
حقیقت یہ ہے کہ میناروں کو بہانہ بنا کر عیسائی مذہبی انتہا پسندوں نے سوئٹزر لینڈ کے امیج کو خراب کیا ہے وہاں کے مذہبی رواداری کے ماحول کو خراب کیا ہے اور عام سوس باشندوں کے مذہبی جذبات سے غلط فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن جس بات کا شاید وہ ادراک نہیں کر سکے وہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں رہنے والے عام امن پسند مسلمان اس فیصلے کو ملکی قانون کے مطابق کئے گئے ریفرنڈم کا جمہوری فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیںگے‘ لیکن عیسائی انتہا پسندوں کا جواب دینے کیلئے اگر مسلمان انتہا پسند میدان میں آ گئے تو کیا ہو گا۔ لیبیا کے سربراہ معمر قذافی نے اس فیصلہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلہ نے القاعدہ کو یورپ پر حملہ کرنے کی دعوت دی ہے یقیناً عیسائی انتہا پسندوں نے مسلمان انتہا پسندوں کو کسی بھی ناپسندیدہ کارروائی کیلئے ایک بہانہ مہیا کردیا ہے‘ اگر خدانخواستہ سوئٹزر لینڈ میں دہشت گردی کے چند واقعات بھی ہو گئے تو سوئٹزر لینڈ کی معیشت جو کہ بڑی حد تک سیاحت اور انکے بینکوں میں عرب ممالک کے پیسے پر استوار ہے یکایک زمین بوس ہو جائیگی۔ سوئٹزر لینڈ اور یورپی ممالک کے سنجیدہ حلقوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ میں بڑی بڑی جنگیں معمولی واقعات ہی سے شروع ہوتی ہیں یہ واقعہ دنیا بھر میں چلنے والی بین المذاہب کی ہم آہنگی کی تحریک کیلئے بھی ایک بڑے چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔
جب تک میناروں کی تعمیر پر پابندی کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا اسکے نتیجے میں پیدا ہونیوالے خطرات کا خدشہ موجود رہے گا سوئٹزر لینڈ سمیت دنیا بھر کی امن کی خواہشمند تنظیمیں اس فیصلے کیخلاف بیانات دے رہی ہیں سوس فیڈرل کونسل نے اسکی مخالفت کی ہے اسی طرح چرچز کی مختلف فیڈیشنز نے اس فیصلے کیخلاف بیان دیا ہے۔ مسلمان ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی نے اسکے خلاف خاصا سخت بیان دیا ہے۔ عرب لیگ کی پارلیمنٹ نے اس کو ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہوئے سوئس عوام سے اس پر نظرثانی کی اپیل کی ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی اس پر شدید تنقید کی ہے۔
پاکستان کے مذہبی سماجی اور سیاسی حلقوں میں اس بارے میں کافی تشویش اور کسی حد تک اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مظاہرے سیمینار اور جلسے وغیرہ ہو چکے ہیں کچھ اور کی تیاری ہے اور سوئٹزر لینڈ کے سفارتخانے اور اقوام متحدہ کو قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان بیانات مظاہروں اور یادداشتوں سے میناروں پر لگائی جانیوالی پابندی ختم نہ ہو سکے گی صرف جذبات کا اظہار ہو سکتے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس سے یہ پابندی ختم ہو سکے اور مسلمانوں کے حقوق کی جو پامالی ہو رہی ہے اور ہمارے مذہبی تشخص پر جو حملہ ہوا ہے اس کا ازالہ ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس فیصلے کے نتیجے میں جو انتہائی پسندی کا خطرہ ہے اس کو بھی ختم کیا جا سکے۔
میری تجویز یہ ہے کہ اس معاملے کو قانونی طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یہ قانونی طور پر ایک مضبوط کیس ہے اسی لئے سوئٹزر لینڈ کی ہر عدالت یہاں تک کہ فیڈرل سپریم کورٹ نے بھی مینار بنانے کے حق میں فیصلہ دیا۔ جہاں تک ریفرنڈم کا تعلق ہے یہ بات یقیناً سوئٹزر لینڈ کے قانون میں ہے کہ ایک لاکھ لوگوں کے مطالبے پر ریفرنڈم کرنا پڑتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قانون میں یہ بھی موجود ہو گا کہ کن باتوں پر ریفرنڈم ہو سکتا ہے اور کن باتوں پر نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ریفرنڈم کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کا خاتمہ کر دیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ریفرنڈم کے ذریعے مذہبی آزادی ختم کر دی جائے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اقلیتوں کے حقوق ریفرنڈم کے ذریعے سلب کرلئے جائیں۔ اس معاملے کو عالمی عدالت میں اٹھایا جانا چاہیے۔ پاکستان میں بہت قابل بین الاقوامی قوانین کے ماہر وکلا موجود ہیں۔ وکلا کی تنظیم پاکستان بار ایسوسی ایشن بھی ایک بہت فعال ادارہ ہے اس کو اس طرح توجہ دینی چاہیے اور اس معاملے کو حل کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو اس معاملہ پر پارلیمنٹ میں بحث کروانی چاہیے قرارداد پاس ہونی چاہیے۔ سوئٹزر لینڈ اور یورپی یونین کو اسکے مضمرات سے آگاہ کرکے اس فیصلے کو ختم کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسکے علاوہ حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ کے اداروں میں اس معاملے کو مؤثر طور پر اٹھانا چاہیے کیونکہ اسکی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر میں دئیے گئے بنیادی حقوق‘ مذہبی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔