پروفیسر مرزا محمد منور ایمان افروز درویش اور دور اندیش دانشور تھے۔ آپ شاعر، ادیب، محقق، مورخ اور خوش گفتار مقرر تھے۔ آپ کے فکروعمل کا محور اسلام، پاکستان، علامہ اقبال اور قائداعظم تھے۔ آپ کو علامہ اقبال سے عشق تھا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ کلام اقبال تفسیرقرآن ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے آپ کی کتاب بزبان انگریزی ڈائمنشنز آف اقبال کے دیپاچے میں لکھا ہے کہ آپ کے لئے اقبال ایک جذبہ ہے، پیشہ نہیں۔“ جبکہ آپ کئی سال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کے بانی چیئرمین اور اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر (ناظم) رہے ہیں۔ آپ کے والد گرامی مرزا ہاشم الدین بھیرہ اور سرگودھا میں پرائمری ٹیچر تھے۔ آپ کے والد سخی اور مہمان نواز تھے۔ اور یہی اوصاف پروفیسر مرزا کی جہات و شخصیت کا حصہ تھے۔ آپ سفید شلوار قمیض اور سرگودھوی اچکن پہنتے تھے۔ سر پر جناح کیپ ہوتی تھی۔ گھر میں اردو زبان بولی جاتی تھی۔ آپ اصلی نسلی پنجابی تھے مگر جب قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمان اردو زبان اپنائیں اور اسکی ترویج کیلئے کام کریں تو آپ نے مرتے دم تک اس پر عمل کیا۔ آپ گریڈ 22سے ریٹائر ہوئے۔ مگر آپ کا گھریلو ماحول سادگی کا نمونہ تھا۔ آپ نے اپنی کمائی میں غریب طالب علم، یتیم، مسکین اور بیوہ کا حصہ باندھ رکھا تھا۔ آپ مرتے دم تک اپنی مرحوم والدہ کی بوڑھی سہیلی کو ماہانہ رقم بھیجتے تھے۔ آپ اسلام کی تبلیغ‘ روس اور بھارت کے خلاف جہاں بھی دامے، درمے، سخنے شرکت کرتے تھے۔ آپ نے قائداعظم، علامہ اقبال، تحریک پاکستان، اسلام ہندو ذہنیت، برہمنیت، جہاد پاکستان، کی سیاسی و سماجی زندگی، اردو، عربی، فارسی اور انگریزی ادبیات اور تنقید پر وقیع کتب رقم کیں۔ آپ کی حقیقی واقعات پر مبنی مزاحیہ کتاب اولاد آدم بھی خاصے کی شے ہے۔ آپ نے ابتدائی سیاسی زندگی خاکسار تحریک سے وابستگی میں گزاری مگر ہندو اخبار ”ملاپ“ کی تحریک پاکستان اور قائداعظم دشمنی نے آپ کو مسلم لیگی بنایا۔ ہندو قیادت ”ملاپ“، ”پرتاب“ اور دیگر ہندو اخبار و جرائد وغیرہ پاکستان کے خلاف لکھتے اور بولتے رہتے تھے۔ آپ کو قرآن کریم سے خاصا شغف تھا۔پروفیسر مرزا بے نیازی اور جرات رندانہ کا نمونہ تھے۔ آپ ایوبی آمریت کے مخالف اور بھٹو کے حامی تھے۔ مگر جب بھٹو نے ایوب خان کی بلائی گئی گول میز کانفرنس کی مخالفت کی تو آپ نے بھٹو کی نیت پر شک کیا جو ”ادھر ہم اور ادھر تم“ کے بعد یقین میں بدل گیا۔ یاد رہے کہ گول میز کانفرنس اور جنرل ایوب کے استعفیٰ کا اعلان مشترکہ تھا۔پروفیسر مرزا محمد منور روس کے خلاف افغان جہاد کے زبردست حامی تھے۔ روسی افواج 27دسمبر 1979ءکی شب کابل میں اتریں۔ آپ نے خبر پڑھتے ہی 27اشعار پر مبنی برجستہ فارسی نظم کہی جس کا عنوان علامہ اقبال کا شعر ”اے سوار اشہب دوران بیا“ تھا۔ یہ نظم افغان جہاد کے حق اور افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف پہلی نظم اور تحریر ہے۔ آپ افغان جہاد کو پاک بھارت تناظر میں دیکھتے تھے۔ بھارت افغانستان میں روس اور اب امریکہ و اتحاد حملہ آوروں کا حامی ہے۔ آپ نے افغان جہاد کے حتمی نتیجے کو درج ذیل الہامی شعر میں بیان کیا ہے:ماسکو دل میں ثمرقند کے جھانکے تو ذرا روح تیمور ہے شورش گہ محشر ابتک باغ فرغانہ سے تا خلد نواح اجمیر پرچم آئیں گے نظر تم کو مسلمانوں کے تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد اور ہندو ذہنیت کے بارے میں آپ کی تحقیقی کتب دیوار برہمن، پاکستان، حصار اسلام، تحریک پاکستان، تاریخی خد و خال خاصی اہمیت کی حامل ہیں جبکہ آپ نے بھٹو اور ضیاالحق کا تجزیاتی موازنہ ”مشاہدہ حق کی گفتگو“ میں کیا ہے۔ مذکورہ کتب نایاب تھیں مگر اب یہ کتب پروفیسر مرزا محمد منور کے داماد محمد صلاح الدین ایوبی اورنواسے متین صلاح الدین کی شبانہ روز محنت و مشقت سے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یہ الفیصل پبلشرز نے شائع کی ہیں۔ پروفیسر مرزا محمد منور اپنی کتب کی اشاعت و ترسیل کے ضمن میں کہا کرتے تھے کہ علم روشنی ہے جس طرح سورج کی روشنی پر کوئی ٹیکس نہیں اسی طرح ان کی کتب بھی ذاتی منفعت سے مبرا ہیں۔ آپ کی کتابیں کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ آپ کی علامہ اقبال بر اردو، انگریزی زبان میں تقریباً 10کتابیں ہیں جو آپ نے اقبال اکادمی کو ہبہ کر رکھی ہیں۔ آپ نے علم اور قلم سے قوم کی خدمت کی ہے۔ قوم سے خدمت لی نہیں۔ آپ نے کبھی تحریر اور تقریر کا معاوضہ نہیں لیا حتیٰ کہ سرکاری اور فوجی تقریبات میں بھی بلامعاوضہ شرکت کی ہے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔