میرے دوست محمد حنیف معروف افسانہ نگار اور سکالر ہیں۔ وہ وسیع المطالعہ شخصیت ہیں۔ میں جب بھی انہیں ملنے جاتا ہوں تو وہ اپنی دکان میں کرسی پر بیٹھے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران میں ان کے ملازم دکانداری کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے ان سے ملنے گیا تو وہی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز کی داستان عشق و جنون ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ کا مطالعہ کر رہے تھے۔ محمد حنیف صاحب نے بتایا کہ یہ کتاب انہوں نے اسلام آباد کی کسی بک شاپ سے منگوائی ہے۔ یہ کتاب میں نے ان سے عاریتاً لے کر پڑھی ہے۔ جنرل صاحب نے اپنی اس داستان عشق و جنون میں اتنے ایشو Issueچھیڑ دئیے ہیں کہ ایک کالم میں جواب نہیں دیا جا سکتا۔ صفحہ نمبر 190پر ایٹمی دھماکہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ”انڈیا کے دھماکے کے بعد سے MOلگاتار رات دن کام میں مصروف رہا۔ ٹیسٹ کے علاقے میں کافی سپاہ پہنچانی تھیں۔ زمینی اور فضائی حملوں کے خلاف ایک مضبوط دفاع قائم کی گئی جس میں PAFکا کردار رہا۔ ہم ہر طرح سے ایٹمی ٹیسٹ کے علاقے کا دفاع کرنے کو تیار تھے۔ آخر نواز شریف صاحب مان گئے۔ فوج کے علاوہ نہ جانے ان پر اور کس کس کا دباﺅ تھا۔ شاید سب سے کارگر یہ ذہنی دباﺅ رہا ہو کہ ”سنہری تاریخی سیاسی فائدہ کیوں کھوتے ہو؟“ جنرل صاحب نے یہ لکھا ہے کہ ”نہ جانے نواز شریف صاحب پر زور کس کس کا دباﺅ تھا؟“ کیا جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب کو واقعی ”کس کس“ کا علم نہیں یا وہ جان بوجھ کر گول کر گئے۔ کیونکہ ان دنوں تمام اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ جناب مجید نظامی نے نواز شریف صاحب سے کہا کہ ”میاں صاحب دھماکہ کر دیں وگرنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔“ میاں نواز شریف صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جناب مجید نظامی کی اس بات نے مجھے ہمت دی اور میں نے دھماکہ کر دیا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جنرل صاحب ہمیں ڈرا بھی رہے ہیں۔ صفحہ 392پر وہ لکھتے ہیں ”ان کے لئے لازم ہے کہ پاکستان کو اندر سے توڑا جائے اور اس حال میں لایا جائے کہ پاکستانی قوم معذور اور مجبور ہو چکی ہو اور ایٹمی صلاحیت سے خود ہی دستبردار ہو جائے۔ تھک کر بیٹھ رہے۔ پاکستان کو اس مقام تک لانے کے لئے کافی کام ہو چکا ہے۔ بس آخری ضرب رہتی ہے۔ کھیل آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔ کہہ نہیں سکتے کہ جب آخری ضرب آئے تو کس رنگ میں آئے لیکن وقت آ پہنچا ہے۔ جس طرح میں نے شروع میں لکھا تھا کہ جنرل صاحب نے اپنی داستان عشق و جنوں میں کئی بحثیں چھیڑ دی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام جمہوری نظام بوسیدہ ہیں۔ جنرل صاحب کے بقول اگر تمام جمہوری نظام بوسیدہ ہیں تو بہتر کونسا نظام ہے۔ وہ عوام کو پرامن طریقے سے اپنے نقطہ نظر کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور فوج کو باور کرائیں کہ ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کے انہوں نے دو عنصر بیان کئے ہیں۔ فوج اور عوام.... الیکشن کے قریب اپنی داستان عشق و جنون لکھ کر اور پھر خود ہی شائع کر کے وہ فوج اور عوام کو کیا Messageدے رہے ہیں۔ ان کے اس جملے کے کیا معنی ہیں کہ ”آج فوج پر لازم ہے کہ اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا مداوا کرے اور قوم کو اس راہ تک پہنچائے جو منزل کو جاتی ہے۔ اس بار فوج کو عوام کا ساتھ دینا ہو گا۔ یہی اللہ کی فوج اس قوم کے سویرے کی ضامن ہے۔ جب منظم عوامی تحریک سڑکوں پر نکلے گی اور ڈٹی رہے گی تو حکومت کو کرسی چھوڑنی پڑے گی۔ جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب غیرسیاسی عارضی حکومت کے قیام کے بعد انقلابی کونسل کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ان کا لکھنا ہے کہ انقلابی کونسل کی دانشوروں اور ماہرین کی ٹیم شامل ہو جو نیا نظام تشکیل دے۔ ظاہر ہے جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب بھی اس انقلابی کونسل کے رکن ہوں گے۔ وہ نئے آئین کی تشکیل چاہتے ہیں جو قوم سے ریفرنڈم کے ذریعے اس پر اعتماد حاصل کیا جائے۔ اسی کو وہ اصل قومی آئین اور عوام کا منظور کیا ہوا آئین سمجھیں گے۔ پھر اس کے مطابق الیکشن کرا کر نئی حکومت وجود میں لائی جائے۔ اس کام کے لئے انہوں نے ایک سال کی مدت لکھی ہے۔ آگے چل کر وہ اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں۔ اسلامی نظام کیا ہے۔ اس کے سیاسی خدوخال کیا ہوں گے۔ معیشت کیسے چلے گی۔ معاشرتی تبدیلیاں کیا ہوں گی اور کیسے رونما ہوں گی۔ نظام تعلیم کیا ہو گا۔ اس کی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ اسلامی نظام کی بات کرنے کے بعد جنرل صاحب لکھتے ہیں ”پاکستان کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی حقائق کے مدنظر یقیناً صدارتی طرز حکومت، پارلیمانی نظام سے بہتر ہو گی۔ یہ اسلامی نظام سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ صدارتی طرز کی حکومت یقیناً زیادہ مضبوط اور کارگرہو گی۔ گویا جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب نے ایک پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ انقلابی کونسل، اسلامی نظام اور پھر جنرل صاحب نے صدارتی طرز حکومت کی بات کی ہے۔ گویا ان کا ذہن خود واضح Clearنہیں کہ وہ پاکستان میں کس قسم کا نظام چاہتے ہیں۔ اسلامی نظام کے متعلق جنرل صاحب خود اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ شیعہ، سنی کا مسئلہ ہو گا اور کچھ عالموں کو تحفظات ہوں گے۔ اس کے باوجود وہ لکھتے ہیں کہ ”اعلان کیا جائے کہ شریعت کا نظام لاگو ہو گیا۔“تشکیل پاکستان کے بعد سب سے پہلا سوال جو لوگوں کے دل میں پیدا ہوا، یہ تھا کہ اس مملکت کا نظام کیسا ہو گا۔ چونکہ مملکت کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے حصول پاکستان میں دلچسپی ہی اس نظریہ کے تحت لی تھی اس لئے اس سوال کا جواب واضح تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام رائج ہونا چاہئے۔ کہنے کو تو یہ بات بڑی آسان نظر آئی لیکن اس کے بعد جب یہ سمجھنے کی باری آئی کہ اسلامی نظام کہتے کسے ہیں اور وہ کس طرح مرتب ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں تھا۔ جیسا نظر آتا تھا۔ 65سال گزرنے کے بعد بھی اسلامی نظام کی تعبیر کے متعلق اس قدر مختلف، متضاد اور گوناگوں آوازیں بلند ہوئیں اور ہو رہی ہیں کہ ساری فضا ایک شور اور ہنگامہ سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کثرت تعبیر کا نتیجہ یہ ہے کہ خواب پریشان سے پریشان ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایک ایسا صاف اور نکھرا ہوا حل جس کے پیش نظر اس مسئلہ میں کوئی الجھاﺅ اور کوئی پیچیدگی نہ رہے۔ جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب نے بھی اپنی کتاب میں مسئلے کا حل پیش نہیں کیا بلکہ مختلف نظاموں کا ذکر کر کے الجھاﺅ پیدا کیا ہے۔ جنرل مشرف کی روشن خیالی کو شاہد عزیز صاحب نے آدھا تیتر، آدھا بٹیر لکھا ہے۔ اسی جنرل پرویز کے ساتھ وہ کام کرتے رہے اور ریفرنڈم میں ووٹ بھی جنرل مشرف کو دیا۔ آخر میں جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب کی ایک اہم غلطی کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ صفحہ نمبر 446اور 448پر چھپا ہے ”پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ اللہ“ یہ اول کلمہ ہے جسے درست نہیں لکھا گیا۔ درست یہ ہے ”لا الٰہ الااللہ“ یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔کتاب میں جس طرح دو جگہ پر کلمہ لکھا گیا ہے اس کے معنی تو یہ ہیں ”اللہ، الٰہ نہیں“ نعوذ باللہ (اللہ محفوظ رکھے)